یہ دیوار برلن کے ٹکڑے ہیں، ڈیڑھ سو کلومیٹر سے زیادہ طویل وہ دیوار جو سوویت یونین نے 1961 میں جرمنی میں تعمیر کرکے یورپ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور مشرقی حصے پر وہ خود قابض ہوا تو مغربی حصہ یورپ اور اتحادیوں کے پاس چلا گیا۔ ایک ہی ملک کے ایک ہی شہر کے باسی بھی ایک سے دوسری طرف نہ آ جا سکتے تھے کہ پھر سوویت یونین کو افغانستان میں ایسی ٹکر کا سامنا ہوا کہ جس نے اس کی چولیں ہلا دیں، دیکھتے ہی دیکھتے روسی کرنسی روبل رل گیا، معیشت دھڑن تختہ ہو گئی اور ماسکو کے لیے دیوار برلن قائم رکھنا ناممکن ہو گیا۔

1989 میں جرمنی کے باسیوں نے شکست و ریخت سے دوچار سوویت یونین کو آخری دھکے دے کر یہ دیوار توڑ دی اور شہر و ملک ایک ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ جرمن اپنی اس عظیم کامیابی کے پیچھے اصل کردار پاکستان کا مانتے ہیں اور انہوں نے اس دیوار برلن کے کئی ٹکڑے پاکستان میں بطور تحفہ و شکریہ بھیجے، ایک ٹکڑا جنرل حمید گل رحمہ اللہ کو بھی بھیجا گیا کہ یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا، وہ ٹکڑا آج بھی ان کے ڈرائنگ روم میں سجا ہے اور دو ٹکڑے لاہور کے عجائب گھر میں موجود ہیں۔
لاہور میں رہتے 25 سال ہونے لگے لیکن میں کبھی عجائب گھر نہیں گیا، اگرچہ کہ اس زمانے میں زندگی کا بڑا وقت اور مصروفیت بھی مال روڈ پر اسی عجائب گھر کے آس پاس ہی رہی، حالیہ جمعرات کو یہاں سے گزر ہوا تو منجھلے میاں حافظ ابوبکر کے ساتھ یہاں داخل ہو ہی گیا تو جہاں جا کر رکا اور سب سے زیادہ دیر جس چیز کو دیکھتا رہا، وہ یہی دیوار برلن کے ٹکڑے ہیں۔ ( لاہور عجائب گھر میں ہر طرف ہندو و بودھ مت تہذیب کے بتوں کے ہی آثار جو طبیعت کو مکدر کرتے، ان میں یہ تحفہ سب سے الگ ہی نوعیت کا ہے)
سوویت یونین کے بکھرنے سے یورپ میں بھی کتنے سوشلسٹ ملک آزاد ہوئے، کتنے بدلے اور دو نئے مسلم ملک بوسنیا اور کوسووا کی شکل میں معرض وجود میں آئے، وسط ایشیا میں 7 مسلم ملک آزاد ہوئے اور ہر طرف اذانیں بلند ہو گئیں، دوسروں سے متاثر اور پست ذہنیت کے مارے یہ نام نہاد نابغے کیا جانیں کہ افغان باقی کہسار باقی نے کیا کیا رنگ ترنگ دکھائے اور کیسے کیسے ناقابل شکست سمجھے جانے والے نظام ملیا میٹ کرکے نقشے بدلے نئے نقشے تشکیل دے دیے ۔

(#حق سچ ۔ علی عمران شاہین)