سوال

جانور کی دم وغیرہ کٹی ہوئی ہوتو اس جانور کی قربانی کا کیا حکم ہے ۔؟شیوخِ عظام رہنمائی فرمادیجئے۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

قربانی ایک اہم عبادت اور اسلام کا شعار ہے۔ جس طرح اس میں قربانی کرنے والے کی نیت کا خالص ہونا شرط ہے، اسی طرح جانور کا ان جسمانی عیوب سے پاک ہونا بھی ضروری ہے، جنہیں نبی کریم ﷺ نے بیان فرما دیا ہے۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“أربع لا تجوز في الأضاحي:العوراء بين عورها، والمريضة بين مرضها، والعرجاء بين ظلعها، والكسير التي لا تنقي”. [سنن الترمذی:1497]

’چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے:ایسا کا نا جانور جس کا کا نا پن ظاہر ہو ، ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو ، ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو، انتہائی کمزور اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو‘۔
اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

“أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نستشرف العين والأذن”.[سنن الترمذی:1503]

ہمیں رسولﷺ نے حکم دیا ہے کہ ہم آنکھ اور کان خوب اچھی طرح دیکھ لیں کہ ان میں کسی قسم کی کوئی خرابی نہ ہو۔ علی رضی اللہ عنہ کی ہی ایک اور روایت میں ہے:

“نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يضحى بأعضب القرن والأذن”. [سنن الترمذی:1504]

’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فرمایا، جن کے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے ہوں‘۔
قتادہ کہتے ہیں میں نے سعید بن مسیب سے “أعضب القرن والأذن” کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے فرمایا:

“ما بلغ النصف فما فوق ذلك”.

’اس سے مراد وہ جانور ہے جس کا آدھا یا آدھے سے زیادہ سینگ ٹوٹا یا کان کٹا ہو‘۔
ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ درج ذیل عیوب والے جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے:
1:ایسا کا نا جانور جس کا کا نا پن ظاہر ہو ۔
2:ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو ۔
3:ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔
4:انتہائی کمزور اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔
5: جس کا سینگ نصف یا نصف سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔
6:جس کا کان نصف یا نصف سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔
اسی طرح ایسے عیوب جو اگرچہ اوپر مذکور نہیں ہیں، لیکن وہ انہیں جیسے یا ان سے شدید ہیں، ان کا حکم بھی یہی ہوگا، جیسا کہ بالکل اندھا ہونا یہ کانا ہونے سے بڑا عیب ہے، اسی طرح ٹانگ کا کٹا ہوا ہونا، یہ لنگڑے پن سے بھی واضح عیب ہے، ایسے جانوروں کی قربانی کرنا بھی درست نہیں۔
ہاں البتہ کوئی تھوڑا بہت مسئلہ ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ اوپر سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے حوالے سے گزرا۔ اسی طرح براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام خطابی فرماتے ہیں:

«فيه دليل على أن العيب الخفيف في الضحايا ‌معفو ‌عنه ألا تراه يقول: بين عورها وبين مرضها وبين ظلعها، فالقليل منه غير بين فكان معفواً عنه». [معالم السنن 2/ 230]

’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانوروں میں معمولی عیب معاف ہے، کیونکہ حدیث میں بیان کردہ عیوب کے ساتھ اس کے واضح اور نمایاں ہونے کی شرط ہے، اس کا مطلب ہے کہ تھوڑ ے بہت نقص میں کوئی حرج نہیں‘۔
دم وغیرہ کے کٹنے کو بھی اہلِ علم نے معمولی عیوب میں شمار کیا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

“وتُجْزِئ…البَتْراءُ، ‌وهى ‌التى ‌لا ‌ذَنَبَ ‌لها، سواءٌ كان خِلْقَةً أو مَقْطوعًا. وممَّنْ لم يرَ بأْسًا بالبَتْراءِ ابنُ عمرَ، وسعيدُ بنُ المُسَيَّبِ، والحسنُ، وسعيدُ بن جُبَيْرٍ، والنَّخَعِىُّ، والحَكَمُ”. [المغني لابن قدامة 13/ 372 ت التركي]

جس جانور کی دم نہ ہو، پیدائشی طور پر یا بعد میں کاٹ دی گئی ہو، وہ بھی قربانی کے لیے چل جاتا ہے، سلف میں سے

ابن عمر رضی اللہ عنہ، سعید بن مسیب، حسن بصری، سعید بن جبیر، نخعی او رحَکَم رحمہم اللہ کا یہی موقف تھا‘۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“والمعز إذا قطع ذَنَبه يجزئ “.[ الشرح الممتع :7/435]

’دم کٹا جانور قربانی کے لیے کفایت کرجاتا ہے‘۔

لہذا ایسا جانور جس کی دم کٹی ہوئی ہو اس کی قربانی میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ