تعاون علماء

حکمران، فوج، عدلیہ، پولیس، ہسپتال، مدرسہ وسکول ، عدالت، مسجد وغیرہ جیسے درجنوں محکمے اور ادارے کسی بھی ملک کا لازمی حصہ ہیں، جس کے بغیر اس کا لمحے بھر کے لیےنظام چلنا ممکن نہیں، اور یہ سارے کا سارا سلسلہ کسی وڈیرے کی جیب سے نہیں، بلکہ کسی بھی ملک کے قومی خزانے سے چلایا جاتا ہے۔  جسے ہم ’ قومی خزانہ‘ کہتے ہیں، کسی وقت میں اسے ’بیت المال‘ کہاجاتا تھا،  جہاد کے ذریعے مالِ غنیمت اور زکاۃ وصدقات اس  میں آمدن کے بنیادی ذرائع تھے،   تمام کے تمام دینی وقومی اخراجات اسی بیت المال سے بطریقِ احسن پورے ہوتے تھے،  امام مسجد ومدرس، جج سے لیکر مجاہد تک سب کی تنخواہ اسی بیت المال سے جاری ہوتی تھی،   بیت المال کا نظام کمزور ہونے کی وجہ سے دو بنیادی خرابیاں پیدا ہوئیں، ایک تو مالِ غنیمت اور زکاۃ  وصدقات میں کوتاہی ہونے لگی، دوسرا جمع ہونے والے صدقات و خیرات   کی تقسیم و توزیع میں عدل وانصاف پسندی اور حکمت ودانش عنقا ہونے لگی، عالی شان عمارتیں، فلک بوس منار اور وسیع وعریض مساجد ومدارس کی تعمیر ، اور خیراتی تجوریاں ہر وقت بھرے رکھنا اصل ہدف ٹھہرا، جبکہ اس بات پر توجہ نہ کی گئی کہ ’عالم،مدرس، طالب علم‘ جو اس نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہیں، ان کے بھی مسائل اور ضروریات ہیں،  آج صورتِ حال یہ ہے کہ داخلی و خارجی قوتیں تو مدارس کو دبانے کی تگ و دو میں ہیں ہی، خود اس کی زمامِ اقتدار سنبھالنے والوں کے رویے بھی اس قدر اوٹ پٹانگ ہیں کہ ایک کثیر تعداد مساجد و مدارس کو خیر آباد کہنے میں ہی عافیت سمجھ رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں ہم  نے اس مسجد ومدرسہ کو دشمنوں سے محفوظ کرنا ہے، وہیں خود اپنی اصلاح کی بھی کوشش کریں، غور کرکے اپنی کمیاں کوتاہیاں تلاش کریں، اور انہیں دور کریں۔

العلماء نے علما و اساتذہ کی خدمت و تکریم کے عنوان سے کام شروع کیا ہے، جس کو الحمدللہ خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہورہی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ معاشرے میں دردِ دل رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے، لیکن سب بارش کے پہلے قطرے کے منتظر تھے۔

اللہ رب العالین کی حکمت و قدرت ہے کہ معاشرہ جتنا بھی بگڑ جائے، روئے زمین پر ایسے عباد الرحمن موجود ہیں، جو صبح سے شام، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، عبادات و معاملات، لین دین، تجارت وکاروبار، رشتہ داریاں، دوستیاں دشمنیاں، سب معاملات قرآن وسنت کی رہنمائی میں طےکرنا چاہتے ہیں، اور اس بات پر شرح صدر رکھتے ہیں کہ دین و دنیا ہر دو کی بھلائی و کامیابی صر ف اور صرف اللہ کے دین میں ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اتنے اہم فریضے کے لیے مہیا افراد کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں ہے، ان کے مسائل و ضروریات کو سنجیدگی سے دیکھنے دکھانے کی زحمت نہیں کی جاتی، حالانکہ حالات کا تقاضا ہے کہ اہلِ دین بھی اپنے تمام تر سازو سامان اور لاؤ لشکر سمیت میدان میں اتریں، ابو بکر صدیق، عثمان بن عفان اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کےنقشِ قدم پر چلتے ہوئے  باصلاحیت و محنتی  علما، بہترین مدرسین و معلمین اور شہ دماغ قلمکاروں اور ریسرچرز کو ’غمِ روزگار‘ اور ’کچن کی پریشانیوں‘ سے آزاد کیا جائے، تاکہ وہ یکسو ہو کر معاشرے میں دین کی خدمت کرسکیں۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ بچوں کو حفظ کروانے کے لیے بہترین قاری، مسجد کےلیے سلجھا ہوا امام، منبر کے لیےمنجھا ہوا خطیب ، معیاری تعلیم دینے والے مدارس و مدرسین میسر نہیں، لیکن کبھی ہم نے غور کیا کہ معاشرے میں کتنے ہی ایسے باصلاحیت افراد وسائل کی عدم دستیابی اور معاشرےکی ناقدری  کا شکار ہو کر ضائع ہورہے ہیں!بہرصورت

ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

کے مصداق معاشرے میں دینی کام کی جدید تقاضوں کے مطابق خدمت کرنے والے باصلاحیت افراد بھی موجود ہیں، اور ان کے لیے وسائل مہیا کرنے والے اہلِ خیر کی بھی کمی نہیں ہے، ذرا توجہ دلانے اور جہت متعین کرنےکی ضرورت ہے، اور اسی فرض کی ادائیگی کے لیے ’العلماء‘ نے ’تعاونِ علماء’ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

اغراض و مقاصد

  1. قابل اساتذہ کرام کو مادی مصروفیات سے آزاد کرکے ابنائے ملت کی تعلیم وتربیت کے لیے فارغ کرنا۔
  2. دین کے لیے اپنی زندگیاں گزارنے والے علما و مدرسین کی بیماری و معذوری کی حالت میں مدد کرنا، تاکہ مشکل وقت میں کوئی اہلِ دین خود کو اکیلا محسوس نہ کرے۔
  3. کامیاب و محنتی علما ومدرسین کے پسماندگان یعنی بیواؤں، یتیم بچوں کی کفالت ، تعلیم وتربیت، اور بچیوں کی شادی وغیرہ کا انتظام و انصرام کرنا۔
  4. اہلِ دین کو خود کفیل کرنے کے لیے حالات کے مطابق پراجیکٹس پر غور وفکر کرنا۔
  5. اہل علم وثروت میں ’بہبودِ علما واساتذہ‘ تحریک کو عام کرنے کےلیے مجالس و میٹنگز منعقد کرنا۔
  6. اس رفاہی و اصلاحی تحریک سے متعلق لٹریچر کی فراہمی اور نشر و اشاعت کا بندوبست کرنا۔
  7. کمیٹی کو وسعت دے کر ایک مضبوط اور مستقل ادارے کا قیام، جو مختلف انداز سے کمیٹی کے کاز کو آگے بڑھائے۔

طریقہ کار

کمیٹی نے تعاون لینا ہو یا دینا ہو، ہر دو صورتوں میں متعلقہ اشخاص کے نام اور شناختیں صیغہ راز میں رکھی جاتی ہیں، اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ تعاون کرتے ہوئے ایسا طریقہ کار اپنایا جائے کہ کسی  اہلیت رکھنے والے شخص کی عزتِ نفس  مجروح نہ ہو، لیکن  کوئی غیر مستحق شخص تعاون ہتھیانے میں کامیاب بھی نہ ہوسکے، تعاون کے لین دین کی تفصیلات ’ادارتی و مشاورتی کمیٹی‘ کے اراکین کے سامنے رکھی جاتی ہیں،  لہذا کوئی بھی فیصلہ ’اتفاقِ رائے‘ سے  کیا جاتا ہے، فردِ واحد کی پسند ناپسند  کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ہر ماہ کے آخر میں ایک رپورٹ شائع کی جاتی ہے، جس میں ڈونرز حضرات کو ان کے فنڈ کے استعمال کے متعلق آگاہ کردیا جاتا ہے۔

  1. کوئی بھی ڈونر جو کم یا زیادہ تعاون کے لیے اس قسم کی شرائط عائد کریں کہ اس سے اہلِ دین کی عزتِ نفس مجروح ہونے کا اندیشہ ہو تو ان سے تعاون لینے میں معذرت کرلی جاتی ہے۔
  2. تعاون لینے کے لیے کمیٹی کی طرف سے درخواست فارم متعارف کروایا گیا ہے، جس کو پُر کرکے پیش کرنا ضروری ہے، استثنائی حالات میں اراکین کمیٹی خود بھی یہ کام کرلیتے ہیں۔
  3. تعاون لینے والے کا عالمِ دین یا مدرس وغیرہ ہونا ضروری ہے، جن کی خدمات کا عرصہ کم ازکم دس سال پر محیط ہو، عام مستحق افراد یاعادی سوالی وگداگر حضرات کی درخواستیں  وصول نہیں کی جاتیں۔
  4. درخواست گزار کسی قسم کی تنظیم وپارٹی کا رکن یا نمائندہ نہ ہو، یاکسی ایسی سرگرمی میں مبتلا نہ ہو جو قانونی اعتبار سے ممنوع ہے۔
  5. تعاون براہِ  راست درخواست گزار کو ہی دیا جاتا ہے، کسی اور اکاؤنٹ یا بالواسطہ تعاون کی ترسیل سے حتی الامکان گریز کیا جاتا ہے۔

کمیٹی کے ساتھ تعاون کی مختلف صورتیں

  • ماہانہ تعاون: کوئی بھی شخص انفرادی طور پر ماہانہ سو، ہزار روپے فنڈ جمع کروانے والے افراد میں نام لکھوا سکتا ہے۔ کوئی شخص زیادہ افراد کا گروپ بنا کر ٹیم لیڈر کے طور پر ہمارے ساتھ شریک ہوسکتا ہے، اور ہر مہینے اپنے گروپ سے کم ازکم پانچ ہزار روپے اکٹھا کرکے کمیٹی تک پہنچائے گا۔
  • غیر مستقل تعاون: کوئی بھی صاحبِ خیر ماہانہ پابندی کے بغیر حسبِ توفیق فنڈ جمع کرواتے ہیں۔

ہماری تحریروں کو اپنے حلقہ احباب میں شیئر کریں، اگر آپ خود کوئی ایسا کام کررہےہیں، یا کرنا چاہتے ہیں تو اپنے نیک عزائم و جذبات یا تجربات و مشاہدات  لکھ کر ہمیں بھیجیں، تاکہ  کمیٹی اپنے لائحہ عمل میں اس سے مدد لے سکے اور   کارکردگی کو بہتر سے بہتر بناسکے۔

کارکردگی

مختلف علماء کو اب تک بیماری، قرض، شادی، تعلیم اور تحقیق وتصنیف کی مد میں اب تک تین کروڑ کے قریب تعاون پیش کیا جا چکا ہے، اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ جس میں بزرگ، بیمار علمائے کرام، شیوخ الحدیث، فوت شدہ علمائے کرام کی اولاد اور بیوائیں، مستحق دینی طلبہ اور کمزور علاقوں میں  تعلیمی، تدریسی، تبلیغی خدمات سرانجام دینے والے حضرات و خواتین شامل ہیں۔