دنیا فانی ہے

یہ دنیا فانی ہے جو انسان اس دنیا میں آیا ہے اس نے اپنی حیات مستعار کے ایام گزار کر واپس جانا ہے۔ کیا نبی، کیا ولی،کیا نیک، کیا بد سب نے موت کا جام پینا ہے۔ اس دنیا میں کسی کو قرار نہیں۔خوش نصیب ہے وہ انسان جو دنیا کی زندگی میں رہ کر اچھے اخلاق، اعلیٰ کردار اور حسن سلوک کی اچھی یادیں چھوڑ جائے۔ دنیا سے جائے تو دنیا والے والہانہ عقیدت سے الوداع کریں اور فرشتے والہانہ محبت سے استقبال کریں۔
ہزاروں اختلافات کے باوجود موت سے کسی کو اختلاف نہیں۔ جو انسان دنیا میں آیا ہے اس نے حیاتِ مستعار کے ایام گزار کر اپنے مالک حقیقی کے پاس واپس جانا ہے۔ موت سے نہ کوئی بچ سکا ہے نہ بچ سکے گا۔
؎ قبر کے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر سجا دی جائے۔
مولانا ماسٹر عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ حافظ عبدالرزاق سعیدی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے چھوٹے بھائی تھے۔
اور والد گرامی رحمۃ اللہ علیہ کے دوستوں میں سے تھے۔
مجھے انکی زیارت کا شرف تو حاصل نہ ہو سکا مگر والد محترم کی زبانی ان کا جو تعارف ذہن پر نقش ہوا وہ کچھ اس طرح تھا کہ موصوف خوش اخلاق، خوش گفتار خوش طبع، محفل کی رونق،علم و عمل کا پیکر، دبنگ و دلیر،
مضبوط اعصاب اور مصمم ارادوں کے حامل، مہمان نواز اور ملنسار انسان تھے۔ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔
فاروق آباد کی سالانہ کانفرنس میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمۃ اللہ علیہ نے کانفرنس کے انتظامات کے سلسلہ میں ان کی جدوجہد کو اپنے خطاب میں بہت سراہا تھا۔
والد گرامی کے وفاق المدارس کے “امتحان فیلو” بھی تھے۔ امتحان کے دوران جامعہ سلفیہ میں رہے۔ اپنے دوستوں کی مجلس میں ان کی خوش طبعی کے کئی واقعات سنایا کرتے۔ شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد امین محمدی حفظہ اللہ رئیس جامعہ اسلامیۃ السلفیہ نصرۃ العلوم گوجرنوالہ نے بھی ان کے ساتھ ہی امتحان دیا تھا۔ حضرت حافظ صاحب کا معمول تھا کہ پیپر سے کچھ دیر قبل پلاٹ میں جلوہ افروز ہو جاتے اور پورے پیپر کا خلاصہ لیکچر کی صورت میں بیان کر دیتے جس سے تمام رفقاء نے بہت فائدہ اٹھایا۔
ایک دن مولانا ماسٹر عبدالرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے: “حافظ صاحب آپ کو پیپر دینے کے لیے یہاں بلا کر وفاق والوں نے زیادتی کی ہے آپ جیسی علمی شخصیت کو تو سند گھر پہنچا دینی چاہیے تھی”۔
اس طرح وہاں اپنی بارونق محفل سجائے رکھتے۔
استاذ العلماء مولانا حافظ فاروق الرحمٰن یزدانی حفظہ اللٌٰہ ان کے تعارف میں رقمطراز ہیں:
“ماسٹر عبدالرحمٰن رحمۃ اللّٰہ علیہ استاذی المکرم حضرت حافظ عبدالرزاق سعیدی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ 17 اگست 1949ء کو ڈیرہ ملا سنگھ میں میاں جان محمد کے ہاں متولد ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے تایا جان مولوی فتح دین سے حاصل کی۔ پھر مزید تعلیم کے لیے حافظ آباد میں دیگر اساتذہ کے علاوہ اپنے چچا محترم جناب حکیم محمد ابراہیم حافظ آبادی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسبِ فیض کیا۔ جب حضرت حافظ صاحب نے جامعہ کو فاروق آباد منتقل کیا تو ماسٹر صاحب بھی ادارے کی تعلیم تعمیر و ترقی میں اپنے بھائی کے معاون رہے۔ پنجابی کے بہترین خطیب تھے۔ اللہ تعالی نے خوبصورت اواز سے بہرہ ور فرمایا۔جب اپنے مخصوص انداز میں نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تو مجمع پر وجد کی اسی کیفیت ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں مدرسہ آنے سے بھی پہلے میں نے مسلم آباد میں ایک کانفرنس کے موقع پر ان سے مولانا علی محمد صمصام رحمۃ اللہ علیہ کی نظم سنی تھی، جس کے کچھ شعر اس طرح تھے. “محمد محمدﷺ پکاندا چلا جا
ایہوگیت صمصام گاندا چلا جا۔
مجھے اس وقت ان کا نام بھی یاد نہیں تھا بس یہ ایک شعر، ان کا سراپہا یا پھر ان کے پڑھنے کا انداز یاد رہا بلکہ اب بھی وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس کانفرنس سے مولانا نصر اللہ خان بھٹی حافظ آبادی اور مولانا یحیٰی خلیق نے خصوصی خطاب فرمایا تھا۔ استاد محترم حافظ سعیدی بھی تشریف فرما تھے۔ ماسٹر عبدالرحمٰن جامعہ رحمانیہ میں عصری تعلیم دینے پر مامور تھے۔ خصوصا شعبہ حفظ کے طلباء کو سکول کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ نے 11 دسمبر 2009ء کو جمعہ کے روز دن کے 2 بج کر 45 منٹ پر وفات پائی اور ڈیرہ ملا سنگھ میں ہی مدفون ہوئے”
(حافظ عبدالرزاق سعیدی رحمۃ اللہ علیہ۔ حیات، خدمات آثار۔ صفحہ: 165)
؎ وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ وادخلہ الجنۃ الفردوس مع الصدیقین والصالحین آمین ثم آمین۔

دعاگو: عبدالرحمٰن سعیدی

یہ بھی پڑھیں: بہن کی وراثت