سوال (4092)

ایک مہینے کا حمل ساقط ہو جائے، عورت نفاس شمار کرے گی یا استحاضہ، میں نے بعض فتاوی جات میں پڑھا تھا کہ نفاس شمار کرنے کی مدت کم از کم 81 دن ہے، کنفرم کر دیں اور مزید رہنمائی فرما دیں۔

جواب

فقہاء کے نزدیک نفاس کا حکم اس وقت لاگو ہوتا ہے جب حمل کی بچے کی صورت بن چکی ہو یعنی اُس میں انسانی خلقت (ہاتھ، پاؤں، سر وغیرہ) کی کچھ علامات ظاہر ہو چکی ہوں۔
اگر حمل ایک مہینے کا ہو:
تو اس مدت میں عام طور پر بچے کی صورت ظاہر نہیں ہوتی، اس لیے اگر حمل اس وقت ساقط ہو جائے اور عورت کو خون آئے:
تو یہ خون نفاس شمار نہیں ہوگا،
بلکہ یہ استحاضہ شمار ہوگا،
لہٰذا عورت نماز اور روزہ کی پابند رہے گی، اور شوہر سے تعلق بھی جائز ہوگا۔
کم از کم حمل کی مدت جس کے بعد نفاس ہو سکتا ہے:
بعض فقہاء کے مطابق اگر حمل کی عمر 80 دن یا اس سے زائد ہو (یعنی تقریباً ڈھائی مہینے)، اور بچے کی شکل واضح ہو جائے، تو اس کے بعد اگر ساقط ہو جائے اور خون آئے تو وہ نفاس ہو سکتا ہے۔
اس بارے میں 81 دن کی قید بعض اہل علم نے اسی وجہ سے لگائی ہے کیونکہ اس کے بعد بچہ عموماً شکل اختیار کر لیتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

سوال: ایک عورت پانچ ماہ کی حاملہ ہے، اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کا سر اور چہرہ واضح نہیں ہے، نہ ہی اس کے گردے ہیں اور نہ نیچے والے دھڑ کے بعض اعضاء ہیں. چار مستند ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اس بچے کی گروتھ نہیں ہو سکتی، اس کا سانس ماں کے سانس کے ساتھ ہے، جیسے ہی یہ بچہ ماں سے جدا ہوگا اس کی موت واقع ہو جائے گی. براہ کرم جلد رہنمائی فرمائیے کہ اس بچے کے متعلق کیا حکم ہے؟ کیا اسے تلف کروایا جا سکتا ہے؟

جواب: اس پر مشایخ کے تفصیلی فتاوی ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جنین کا تلف/ اسقاط اسی صورت کروایا جا سکتا ہے، جب عدم اسقاط ماں کے لیے جان لیوا یا اس کے کسی عضو کے تلف کا باعث بن سکتا ہو۔

بچے کی گروتھ نہ ہونا یا اس کے اعضاء سلامت نہ ہونا، یہ اسقاط کے لیے مناسب/مبیح عذر نہیں ہے۔

یہ لجنۃ العلماء للإفتاء کا ایک فتوی ہے جس میں اس سے ملتے جلتے مسئلے سے متعلق عدم جواز کا موقف اپنایا گیا ہے۔

محض ظن کی بنا پر حمل ضائع کرنا

ایک اور فتوے میں جواز کی صورت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:

’’عام حالات میں  جیساکہ اوپر بیان کردہ پہلی دو صورتیں ہیں، ان میں تو کسی صورت یہ کام جائز نہیں،البتہ تیسری  صورت میں اگر عورت کے لیے مشقت و تکلیف استطاعت وبرداشت سے بڑھ کر ہو، اسی طرح چوتھی صورت میں بھی مزید ولادت عورت کی جان کے لیے خطرناک ہو، تو مجبورا  نس بندی کروائی جاسکتی ہے۔ کیونکہ  اللہ کا فرمان ہے:

{لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا} [البقرة: 286]

کسی بھی انسان کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مشقت میں ڈالنا درست نہیں۔ اسی طرح  ایک  زندہ انسان کی جان  کی حفاظت نئے انسان کی ولادت سے اہم اور مقدم ہے۔ سعودی فتوی کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ  ایک تفصیلی مضمون میں بھی یہی موقف اختیار کیا گیا ہے۔ ( دیکھیں: مجلۃ البحوث الإسلامیۃ:5/127)، اسی طرح رابطہ عالم اسلامی کی ذیلی کمیٹی ’المجمع الفقهي الإسلامي‘ نے بھی یہی قرار داد پاس کی ہے’’۔

مکمل فتوی یہاں ملاحظہ کریں:

منعِ ولادت کے لیے آپریشن کروانا کیسا ہے

فضیلۃ الباحث حافظ خضر حیات حفظہ اللہ