سوال

ایک خاتون کے غالبا چار بچے ہیں، (تین بیٹے، ایک بیٹی) ایک بچہ مس کیرج کی وجہ سے پہلے ضائع ہوچکا ہے، اور ایک بچہ کل ضائع ہوا ہے، کل اس کا کیس اتنا سیریس تھا کہ کوئی ڈاکٹر لینے کے لیے آمادہ نہیں تھی، ان کی ایک عزیزہ ڈاکٹر نے ہمت کی،اب وہی ڈاکٹر مُصِر ہے کہ منعِ ولادت کے لیے آپریشن ضروری ہے، وہ میاں بیوی دین والے ہیں اور فکر مند ہیں، کہ کیا شرعاً ان کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

منعِ ولادت کا مسئلہ عصر حاضر میں خطرناک حد تک پھیل چکا ہے،  اس حوالے سے پوچھے گئے سوالات  سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمومی، صحتمند، باہمت، صابرہ خواتین آج کل کم ہیں،  اور درج ذیل قسم کی خواتین معاشرے میں  زیادہ پائی جاتی ہیں:

1.بعض خواتین  دوران حمل، کسی غیر معمولی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتیں، صرف وضع حمل کا تکلیف دہ مرحلہ ایک دو بچوں تک برداشت کرتی ہیں،اس کے بعد محض گھبراہٹ اور تکلیف کی بنا پر مزید بچے نہیں لینا چاہتیں۔

2.بعض خواتین  بچوں کی دیکھ بھال، اور تربیتی امور سے پریشان ہوکر، مزید بچوں کی متمنی نہیں رہتیں۔

3.بعض خواتین حمل کے پہلے دن ہی سے شدید تکلیف میں رہتی ہیں، مسلسل وومٹنگ، گائنی کی مختلف تکلیفیں، ان کو ڈاکٹرز دو بچوں کے بعد عموما آپریشن ریکمنڈ کرتے ہیں۔

4.بعض خواتین کے ہاں بڑے آپریشن سے تین بچوں کی پیدائش ہوجائے تو ڈاکٹر ولادت کا سلسلہ مستقل بند کرنے کے لیے آپریشن تجویز کرتی ہیں۔

یاد رہنا چاہیے کہ  نکاح کا ایک بنیادی مقصد بچوں کی ولادت اور نسلِ انسانی میں اضافہ اور بڑھوتری ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:

{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً} [النساء: 1]

’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کے ساتھی کو بنایا، اور پھر ان دونوں سے بہت سارے مردوں، عورتوں کو پھیلایا۔‘

ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، عرض کی: مجھے ایک خوبصورت اور حسب ونسب والی خاتون کا رشتہ مل رہا ہے، لیکن وہ بانجھ ہے، کیا میں اس سے شادی کرلوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، وہ آدمی دوسری دفعہ آیا، پھر تیسری دفعہ آیا، ہر دفعہ یہی پوچھتا رہا، اور آپ اسے منع کرتے رہے، اور پھر فرمایا:

«تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ»[سنن أبي داود :2050]

’بہت زیادہ محبت کرنے والی،  بچے پیدا کرنے والی خاتون سے شادی کیا کرو، بیشک میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔‘

لہذا منعِ ولادت  اور نس بندی بالکل جائز نہیں، کیونکہ اس سے نکاح کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے، اور پھر یہ تغییر لخلق اللہ میں بھی شامل ہے اور تیسری  بات کہ یہ جزوی إخصاء ہے جبکہ  إخصاء بھی ممنوع ہے۔

لہذا عام حالات میں  جیساکہ اوپر بیان کردہ پہلی دو صورتیں ہیں، ان میں تو کسی صورت یہ کام جائز نہیں،البتہ تیسری  صورت میں اگر عورت کے لیے مشقت و تکلیف استطاعت وبرداشت سے بڑھ کر ہو، اسی طرح چوتھی صورت میں بھی مزید ولادت عورت کی جان کے لیے خطرناک ہو، تو مجبورا  نس بندی کروائی جاسکتی ہے۔ کیونکہ  اللہ کا فرمان ہے:

{لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا} [البقرة: 286]

کسی بھی انسان کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مشقت میں ڈالنا درست نہیں۔ اسی طرح  ایک  زندہ انسان کی جان  کی حفاظت نئے انسان کی ولادت سے   اہم اور مقدم ہے۔  سعودی فتوی کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ  ایک تفصیلی مضمون میں بھی یہی موقف اختیار کیا گیا ہے۔ ( دیکھیں: مجلۃ البحوث الإسلامیۃ:5/127)، اسی طرح رابطہ عالم اسلامی کی ذیلی کمیٹی ’المجمع الفقهي الإسلامي‘ نے بھی یہی قرار داد پاس کی ہے۔

  • حمل وولادت کے بڑھتے ہوئے مسائل کی بعض وجوہات:

اوپر بیان کردہ سوال کاجواب ، اس صورت میں ہے کہ جب واقعتا عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہو، لیکن سننے اور دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ  بعض دفعہ یہ مسائل ہوتے نہیں، بلکہ پیدا کردیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات پیسے لینے کے چکر میں یا پھر بد احتیاطی کی وجہ سے ایک نارمل کیس کو آپریشن میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اس بات کو درج ذیل نکات میں واضح  کیا جاسکتا ہے:

  • دوران حمل مصنوعی کیلشیم پیڑو کی ہڈیوں کو اس قدر مضبوط بنا دیتا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتیں. جسکے نتیجے میں کبھی بچہ نیچے نہیں آتا، کبھی وقت ولادت عانہ میں پھنسنے کا خدشہ ہوتا ہے، اور کبھی درد زہ ہی شروع نہیں ہوتی۔
  • اسکے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کا ایام حمل گننے کا غلط طریقہ بھی آپریشن کا سبب بنتا ہے۔حمل کا آغاز نطفہ امشاج بننے سے ہوتا ہے جو سپرم اور بیضہ کے ملاپ سے تیار ہوتا ہے، جسے انگلش میں ’زائیگوٹ‘ اور طب کی زبان میں ’بارآور بیضہ ‘ کہا جاتا ہے۔یہ کبھی عورت کے پیریڈ کے آخری ایام میں بنتا ہے، اور کبھی حیض کے تیرہویں دن۔ اس سے پہلے بن ہی نہیں سکتا کیونکہ حیض کے تیرہویں یا چودھویں دن بیضہ، بیضہ دانی سے باہر نکلتا ہے۔ تلقیحِ بیضہ کے دن عورت کے بدن کی حرارت نصف ڈگری فارن ہائیٹ بڑھ جاتی ہے، اور اسے سر میں میٹھا میٹھا درد محسوس ہوتا ہے۔

ڈاکٹرز حیض کے پہلے دن کو حمل قرار پانے کی تاریخ بنا لیتی ہیں، جس کے نتیجے میں انکے حساب سے نو ماہ وقت سے کم از کم پندرہ دن پہلے پورے ہو جاتے ہیں، جس پہ وہ اگر دردیں شروع نہ ہوں تو آپریشن کا شور مچا دیتی ہیں!

  • پھر آپریشن اور ٹانکوں کا پرانا طریقہ کار بھی مریضہ کی جلد کو کچا کردیتا ہے، جسکے بعد چوتھا آپریشن ایک رسک ہوتا ہے، اور پانچواں آپریشن تو انتہائی خطرناک، کہ اسکے بعد ٹانکوں کے درست طور پر نہ جڑنے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ البتہ اگر آپریشن بھی جدید طرز پر کر لیا جائے تو پندرہ بیس آپریشن بھی ہوجانے کے باوجود کوئی پریشانی نہیں۔ہاں یہ نئی طرز کا آپریشن مہنگے داموں کرتے ہیں!
  • حمل اور ولادت کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے کچھ ہدایات:
  • کوشش کی جائے کہ زچہ کو ہر ماہ کے الٹراساؤنڈ سے بچایا جائے اور عرقیات سونف گلاب گاؤزبان دیں ، تاکہ نظام انہضام بہتر رہے. اور دیسی گھی بھرپور کھلائیں تاکہ ولادت آسان ہو، اور انار گاجر سیب اورپپیتہ  کھلائیں کہ خون کی کمی نہ ہونے پائے، اور چوتھا ماہ مکمل ہونے پہ کھجور کھلانا شروع کر دیں تاکہ فولاد کی کمی پوری ہوتی رہے، اور ابتدا سے آخر تک دن میں کم ازکم تین گھنٹے دھوپ میں  نکلیں، اور ننگے پاؤں کچی زمین پہ یا گھاس پہ واک کروائیں. اور آخری دو ماہ میں اگر صحت ساتھ دے تو مشقت والے گھریلو کام کروائیں، ان شاءاللہ آپریشن کی کبھی نوبت نہیں آئے گی۔
  • اور اگر منع ولادت کی ضرورت ہے تو اس کے  لیے نس بندی نہ کروائیں بلکہ وقفہ  بڑھا لیں۔اور وقفہ بڑھانے کے لیے مانعِ حمل ادویات کے بجائے شِیر آور ادویات و اغذیہ کھلائیں، کیونکہ جو ہارمونز دودھ پیدا کرتے ہیں، وہ حمل نہیں ہونے دیتے. یہی ایک فطری طریقہ ہے ضبطِ ولادت کا، باقی  ضرر رساں ہیں۔
  • آپریشن سے بچنے کے لیے بکثرت یہ دعا مانگیں :
  • اَلَّلهُمَّ إِنَّكَ قُلتَ {ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ} فَيَسِّرِ السَّبِيلَ.

  • بوقت ضرورت ضبطِ ولادت کےلیے ’عزل‘ بھی قدیم زمانے سے رائج طریقہ ہے، یعنی ہمبستری کرتے ہوئے،مادہ منویہ کا اخراج عورت کی شرمگاہ سے باہر  کرنا۔ اسی طرح اگر عورت کی صحت اجازت نہیں دیتی، تو وقتی طور پر ہمبستری سے پرہیز بھی کیا جاسکتا ہے، اور مرد متبادل کے طور پر دوسری شادی بھی کرسکتا ہے۔
  • إسقاط ِحمل کی مریضہ کو بھی اگر مناسب انداز سے ٹریٹ کیا جائے ، تو ایک سے دو سال تک کے وقفہ کے بعد رحمِ مادر پھر سے حمل اٹھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ کسی مستند اور حکیمِ حاذق سے اس کا علاج کروایاجائے، تاکہ قوت بحال ہو کر عورت کے رحم میں دوبارہ پہلے والی صلاحیت پیدا ہوجائے۔ رحم اور بچہ دانی کو ختم کروانا اس کا درست علاج محسوس نہیں ہوتا، کیونکہ یہ ایسے ہی ہے کہ سردرد کا علاج کرنے کی بجائے سر کو ہی اڑا دیا جائے۔ هذا ما عندنا والله أعلم بالصواب

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ  (رئیس اللجنۃ)

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ