سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
“اللہ تعالی پندرہ شعبان کی رات اپنی ساری مخلوق پر مطلع ہو کر مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ ساری خلقت کو معاف فرما دیتے ہیں.”
⇚⇚ شیخ البانی رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں :
“یہ حدیث صحیح ہے اور مختلف صحابہ جیسے معاذ بن جبل، ابو ثعلبہ الخشنی، عبداللہ بن عمرو،ابو موسی اشعری، ابو ہریرہ ،ابو بکر صدیق، عوف ابن مالک اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے مختلف اسانید سے مروی ہے جو ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں….. (پھر فرماتے ہیں) خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث ان مجموعی طرق کی بنیاد پر بلا شک صحیح ہے، اگر ضعف شدید نہ ہو تو صحتِ حدیث تو اس سے کم عدد سے ہی ثابت ہو جاتی جیسا کہ اس حدیث کا معاملہ ہے.”
(السلسلہ الصحيحہ : 3/ 136)
✿ اس حدیث کے طریق اور تفصیلی تحقیق سے قطع نظر بعض لوگوں نے سمجھا کہ شاید شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی فضیلت میں مروی ایک روایت کو صحیح قرار دینے کے ساتھ اس میں مروجہ عبادات کو بھی جائز سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا بالکل نہیں، کسی رات کی فضیلت ثابت ہونا الگ بات ہے اور اس رات میں مخصوص عبادت کرنا الگ چیز ہے کسی بھی مکان وزمان کی فضیلت ثابت ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس میں کوئی خاص عبادت بھی مشروع ہو جائے.
⇚⇚⇚ اسی لیے شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے پندرہویں شعبان کی رات قیام اور دن کو روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
“اہل سنت کے ہاں بالکل صحیح بات معروف ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات کو قیام اور اس دن کا روزہ غیر مشروع اور بدعی عمل ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں: پہلی بات تو یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور باقی سلف صالحین سے اس رات کو بیدار ہونے یا اگلے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا بالکل بھی منقول نہیں۔یہ پہلا سبب ہے ۔اور ہم بلا شک وریب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہر خیر سلف صالحین کی پیروی میں ہے اور ہر شر کی بنیاد بعد والوں کی بدعات ہیں، اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہر وہ عبادت جو سلف صالحین کے بعد ایجاد ہوئی ہے وہ بدعت ہے،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بدعت وہ جیسی بھی ہو اس کو گمراہی قرار دیا ہے، اس بدعت کو کرنے والے چاہے اسے جتنا بھی اچھا اور خوبصور ت سمجھیں پھر بھی معاملہ وہی ہے جیسا کہ عالم ومتقی کبار صحابہ میں سےایک فردسیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہر بدعت گمراہی ہے چاہے لوگ اسے اچھا ہی سمجھیں، یہ اثر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بالکل صحیح ثابت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث”ہر بدعت گمراہی ہے” کی واضح اور مؤکد تفسیر ہے۔جب معاملہ یہ ہے تو معلوم ہوا کہ پندرہویں شعبان کو روزہ اور اس کی رات کا قیام دونوں کام بدعت ہیں، یہ سلف صالحین کے دور میں بالکل بھی نہیں تھے، یہ پہلی بات ہوئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ پندرہ شعبان کا روزہ اور رات میں قیام کو مستحسن سمجھتے ہیں وہ ایک سخت ضعیف روایت پر اعتماد کرتے ہیں جسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ حدیث سخت ضعیف ہے اس پر عمل بالکل جائز نہیں بلکہ جو لوگ فضائلِ اعمال میں ضعیف پر عمل کے قائلین ہے ان کے ہاں بھی جائز نہیں کیونکہ ان کے ہاں بھی شرط ہے کہ حدیث کا ضعف شدید نہ ہو جبکہ اس کا ضعف شدید ہے۔”
⇚⇚نیز فرماتے ہیں:
“لہذا پندرہ شعبان کا خاص اہتمام بالکل بھی درست نہیں کیونکہ اس کی فضیلت میں مطلقا کچھ بھی ثابت نہیں اور نہ ہی سلف صالحین سے اس رات کے اہتمام کے متعلق کوئی ایسی بات منقول ہے جسے آپ ان بعد والوں لوگوں سے سنتے ہیں ۔باقی رہا پندرہ شعبان کا روزہ تو اس کے متعلق ایک تو مذکورہ روایت صحیح نہیں اور دوسراس کے برعکس صحیح حدیث موجود ہے کہ “جب نصف شعبان گزر جائے تو رمضان تک روزہ نہ رکھو۔”اور اسی مناسبت سے بطورِ عبرت بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم عام لوگوں کو دیکھتے ہیں وہ بعض ایسی عبادات جن کے بارے میں نہ کوئی صحیح روایت ہے نہ درایت ہے ان کا اس طرح اہتمام کرتے ہیں کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح منقول اور بالاتفاق جائز عبادات کا بھی اہتما م نہیں کرتے۔اس چیز کا اہتمام کرتے ہیں جس کا اہتمام جائز نہیں اور جس کااہتمام ہونا چاہیے اس سے اعراض کرتے ہیں۔یہ نصیحت ہے اور نصیحت مومنوں کو ضرور فائدہ دیتی ہے۔ان شاء اللہ”
(حافظ محمد طاھر)