سوال
اگر غیر مسلموں کے عبادت خانے مثلا مندر، چرچ وغیرہ تعمیر و مرمت وغیرہ کرنے کا کام ملے، تو کیا یہ کرنا جائز ہے؟
اسی طرح ایسے لوگوں کے لیے تعمیراتی مٹیریل فروخت کرنا یا ان کے کسی مذہبی فنکشن کے لیے کریانے کاسامان فروخت کرنا، اس بارے میں بھی وضاحت کردی جائے۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ اسٹ وغیرہ جتنے بھی غیرمسلم اور کفار ہیں، ان کے معابد اور عبادت گاہوں کی تعمیر و مرمت کرنا یا اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا تعاون کرنا شرعا حرام ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ [المائدة: 2]
’گناہ اور سرکشی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو‘۔
اس آیت کی رو سے کفار کے جتنے بھی عبادت خانے ہیں، ان کی تعمیر و مرمت وغیرہ کرنا، تعمیراتی مٹیریل اور ساز و سامان بیچنا، اسی طرح ان عبادت گاہوں میں استعمال ہونے والی اشیاء فروخت کرنا، یہ سب کام ’تعاون علی الاثم’ ہونے کی بنیاد پر ناجائز ہیں۔
جہاں تک عام کریانے کی چیزیں اور اشیائے خور و نوش ہیں، اس میں اگر تو بالخصوص مندر یا میلے کے ارد گرد ایسی دکانیں بنائی جاتی ہیں، یا ان کے خاص مواقع پر ایسی چیزیں بالخصوص اہتمام کے ساتھ رکھی جاتی ہیں، تو یہ بھی اسی ممنوع تعاون کی ایک صورت ہے۔
جیسا کہ بعض علاقوں میں مندروں اور مزاروں کے جلسے جلوس اور میلوں ٹھیلوں کے ارد گرد بڑے بڑے بازار لگتے ہیں، ایسے علاقوں اور بازاروں میں دکانیں کرائے پر لی دی جاتی ہیں، یہ بھی درست نہیں۔
لیکن اگر ویسے کسی عام علاقے میں جنرل سٹور یا عمومی دکان ہے، جس میں سے کوئی بھی شخص آ کر چیز لے جا سکتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ