سوال

میری بیگم میری بات نہیں مانتی حتی کہ ایک بار اس نے بطور فیشن سر کے بال کاٹ لیے، جس پر میں نے اسے ڈرانے کے لیے کہا کہ اب میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑنے جا رہا ہوں، دوبارہ لینے نہیں آؤں گا۔

جب میں وہاں گیا، میں نے اپنے سسرال والوں کو بتایا کہ آپ اس کو ایک ماہ تک اپنے پاس رکھیں، تاکہ یہ ذرا سدھر جائے، بعد میں میں لینے آ جاؤں گا، اسی طرح چھ ماہ گزر گئے اور جب ہم لینے گئے تو انہوں نے آگے سے بھیجنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس کو طلاق ہو چکی ہے۔ حالانکہ میرا طلاق دینے کا ارادہ نہیں تھا، میں نے اسے ڈرانے کے لیے یہ کیا تھا. برائے مہربانی رہنمائی کر دیں کہ یہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

مذکورہ صورت میں طلاق نہیں ہوئی۔ کیونکہ یہاں طلاق کے لیے الفاظ واضح نہیں ہیں، طلاق کے الفاظ صریح ہوتے پھر نیت ہوتی یا نہ ہوتی طلاق ہو جانی تھی۔ ليكن مذکورہ صو رت میں کنایہ کے الفاظ ہیں اور کنائے میں دیکھا جائے گا کہ الفاظ کہنے والے کی نیت طلاق کی تھی یا نہیں اور یہاں پر بندہ خود کہہ رہا ہے کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی، لہٰذا طلاق واقع نہیں ہوئی۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ”. [صحیح البخاری: 01]

’’تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘‘۔

ہاں البتہ نیت کے حوالے سے ایک وضاحت ضروری ہے کہ ایسے شخص سے اچھے طریقے سے تحقیق کر لی جائے کہ جب آپ نے یہ الفاظ کہے تھے، تب آ پ کی نیت کیا تھی؟

کیونکہ اس طرح بھی دیکھنے میں آیا کہ جب لڑائی جھگڑا اور غصہ آتا ہے تو پھر لوگ طلاق کی نیت سے الفاظ بولتے ہیں، لیکن بعد میں جب عقل ٹھکانے آ جاتی ہے تو پھر گنجائش لینے کے لیے اصل حقیقت کو چھپاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری نیت طلاق کی نہیں تھی۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ