سوال (2504)

ایک صاحب اپنا گھر کسی کو گروی دے کر حاصل ہونے والی رقم ایک کاروبار میں انویسٹ کر دیتے ہیں؟ کیا یہ عمل درست ہے اور اس کاروبار سے حاصل ہونے والا منافع ان کے لیے جائز ہے؟

جواب

بظاہر تو گروی اور زر ضمانت ایک دوسرے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، لیکن ان میں دور حاضر کے بڑھتے ہوئے معاملات کو دیکھ کر کوئی نہ کوئی فرق پایا جاتا ہے یا اگر آپ تلاش کریں گے تو پایا جائے گا، ابتداءً زر ضمانت رہن ہی ہوتا ہے، لیکن آپ کو بدل لٹانا ہے تو وہ قرضے کی شکل اختیار کر جاتا ہے، جب آپ کسی سے قرض لیتے ہیں تو وہ آپ استعمال کرتے ہیں، اس لیے کچھ فرق تسلیم کیا گیا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل:
شیخ ایک ہے کہ ایڈوانس رقم جو کرایہ دار مالک کو بطور ضمانت کے دیتا ہے، جس کی وجہ اگر کوئی نقصان ہوگا تو وہ اس سے پیسے کاٹ لے گا یا یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی نہ کی گئی تو ایڈوانس کی رقم وہاں استعمال ہوجائے گی، ایک ہے کہ کوئی گروی رکھتا اپنا مکان اور وہ ایڈوانس جتنی رقم نہیں ہوتی، بلکہ اچھی خاصی رقم ہوتی ہے جو تقریبا مکان کی قیمت کے لگ بھگ ہوتی ہے اور پھر ایڈوانس والے معاملے میں کرایہ وہی ہوتا جو عام مارکیٹ میں چل رہا ہوتا ہے، گروی کے معاملہ میں کرایہ بھی برائے نام رکھا جاتا ہے۔
جواب:
جی اس پر پڑتال کی ضرورت ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل:
یہاں تک تو بات سمجھ آگئی ہے کہ اس زر ضمانت کو استعمال کر سکتے ہیں، مگر سوال یہ بھی ہے کہ آیا مکان یا دکان گروی لینا دینا جائز ہے؟
جواب:
گروی لینے یا دینے کے بارے میں اصول طے ہوچکے ہیں، یہ امر جائز ہے، جائز چیز رکھی بھی جا سکتی ہے، لی بھی جا سکتی ہے، باقی یاد رہے کہ ہر چیز کا تذکرہ نہیں آتا ہے، باقی سواری کا ذکر ہے،سواری کو کھلانے پلانے کے عوض اس کا استعمال جائز ہے، یہ بحث بھی موجود ہے، اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زرہ گروی رکھوائی تھی، باقی فقہ کی کتابوں میں رہن کی بحث دیکھ لیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل:
لیکن مکان کی صورت حال کچھ اور نوعیت کی ہے۔ مکان گروی رکھنے والا اسے استعمال نہیں کرسکتا اگر استعمال کرنا چاہے تو اس کا راہن سے کرایہ وغیرہ کا طے کرلے کیونکہ آج کل صورت حال یوں ہےکہ ایک آدمی مکان رہن رکھ کے مرتہن سے کچھ رقم لیتا ہے اور مرتہن اس مکان سے فائدہ اٹھاتا ہے یعنی اس میں سکونت اختیار کرتا ہے جبکہ راہن اس کی رقم استعمال کرتا ہے حالانکہ مکان کو جانور وغیرہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جانور کا اگر دودھ وغیرہ نہ دھویا جائے گا اور چارہ وغیرہ نہ ڈالا جائے گا تو اس کے تلف و ضرر کا خدشہ ہے جبکہ مکان میں ایسی کوئی صورت نہیں ہاں اگر وہ راہن سے مکان کا کرایہ طے کرلیتا ہے تو اس میں سکونت اختیار کرسکتا ہے وگرنہ اس کا اس سے فائدہ اٹھانا سود کے زمرے میں آئے گا۔
وبالله التوفيق
شیخ محترم معذرت کہ بار بار سوال کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا مذکور مسئلہ درست ہے؟ یا رہن رکھے گئے مکان کو استعمال کرنا درست نہیں ہے،
اور اگر درست نہیں تو رہن رکھ کر جو شخص رقم استعمال کر رہا ہے، اس کا یہ فعل جائز ہو گا یا ناجائز جبکہ اسے معلوم ہے کہ میرے رہن رکھے گئے مکان سے فائدہ لیا جائے گا اور اس کے لیے الگ سے کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جائے گا۔
جواب:
جی ہاں یہ فتویٰ درست ہے، جو مرتہن ہے، جس کے پاس گھر گروی رکھا ہوا ہے، وہ کرایہ دینے کا پابند ہے، بھلے راہن کی اجازت سے ہو، باقی علماء نے زر ضمانت کو قرض تصور کرتے ہیں، مالک اس کو استعمال کرسکتا ہے، باقی یہ ہے کہ مالک وقت پر وہ مالیت واپس کرنے کا پابند ہے۔ یہ الگ چیز ہے، گھر کا کرایہ الگ چیز ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

طالب علم کی رائے یہ ہے کبار مشائخ سے تصحیح کی درخواست ہے کہ:
1: مکان کرائے پر لینے کو گروی قرار دینا خلط مبحث ہے کیونکہ کرائے کے احکام الگ ہیں اور گروی کے احکام الگ ہیں۔
2: مروجہ صورت میں ضرورت مند گویا کہ گروی چیز ڈھونڈ رہا ہوتا ہے کہ کوئی میرے پاس رہن رکھوا دے! جبکہ اصل صورتحال اس کے برعکس ہوتی ہے کہ ضرورت مند قرض کو ڈھونڈے کہ مجھے قرض مل جائے پھر اگر قرض دینے والا ڈیمانڈ کرے کہ میرے پاس کوئی چیز گروی رکھوائیں تب گروی رکھوانا درست ہوتا ہے۔
3: یعنی مالک مکان کو چاہیے کہ سیدھی بات کرے اور کہے کہ مجھے 20 لاکھ قرض چاہیے جس کے عوض میں اپ میرا مکان گروی رکھ لیں۔ نہ کہ ان 20 لاکھ کو ایڈوانس یا زر ضمانت کا نام دے اور نہ 20 لاکھ دینے والا اسے ایڈوانس یا زر ضمانت سمجھے بلکہ قرض سمجھے،اب اس گروی مکان سے فائدہ اٹھانے کی شریعت میں میرے ناقص علم کے مطابق اجازت نہیں ہے الا یہ کہ کوئی ایسی گروی چیز ہو جس پر خرچہ ارہا ہو جیسے بکری وغیرہ کہ مرتہن اس پر خرچ بھی کرے گا اور اس کا دودھ بھی استعمال کر سکتا ہے۔
4: ایک اہم اشکال یہ بھی ہے کہ فقہاء نے مرھون کی شرائط میں یہ شرط بھی رکھی ہے کہ وہ مرتھن کے قبضے میں اجائےـ اب کوئی ایسی چیز کہ جو مرتہن کے ہاتھ میں ہو اور ہاتھ میں آجانا ہی قبضہ کہلائے اس کی فائل وغیرہ نہ ہو جیسے سونا یا کوئی بھی استعمال کی چیز۔تو اس پر تو مرھون کی شرط پر عمل کرنا اسان ہے لیکن اگر گروی میں مکان ہو تو کیا محض اس میں کرایہ دے کر رہنے سے وہ قبضے میں آجاتا ہے؟یا باقاعدہ مالک کی طرف سے مکان اس کے نام کیا جائے جیسا کہ عرف یہی ہے قبضے میں دینے کا؟
تو اگر گروی مکان میں رہن کی اس شرط کو صحیح معنوں میں پورا کیا جائے تو اس کا معروف قبضہ دینا یعنی کہ مکان مرتھن کے نام کرنا پڑے گا!
تو کیا ایسا کوئی بندہ ہوگا کہ جو مکان اس شرط کے اوپر گروی دے دے!؟؟؟
واللہ اعلم۔
یہ کچھ اشکالات ہیں مکان کرائے پر لینے اور اسے گروی قرار دینے کی صورت پر۔۔لہذا کبار مشائخ سے تصحیح اور اصلاح کی درخواست ہے۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ