ہمارے ہاں گریٹر “اسرائیل” کو ایک ڈراؤنے مقصد کے طور پر پڑھا اور جانا جاتا ہے کہ صیہونیوں کا یہ مقصد شاید امت مسلمہ کی بربادی کا پروانہ ہے۔
“گریٹر اسرائیل” کی سیاسی تشریح کے بارے بھی اختلاف ہے کہ اسکی علاقائی حد بندی کہاں تک ہے کچھ تو صرف موجودہ فلسطین اور اسرائیل کی ساری زمین کو اسکا حصہ مانتے ہیں جبکہ کچھ فلسطین کیساتھ ساتھ عراق و لبنان کے کچھ علاقے اور نارتھ سعودیہ کے کچھ علاقے تک بھی مانتے ہیں۔
جبکہ کچھ ان علاقوں کیساتھ ساتھ مصر کے مشرقی علاقے بھی مانتے ہیں جسکے متعلق یہ نظریہ اور استدلال دکھایا جاتا ہے کہ” صیہونی پروٹوکولز میں ایک سانپ کا ذکر ملتا ہے جو فلسطین، قاہرہ، اُردن، شام، عراق، اور مدینہ منورہ تک کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، انکے مطابق یہود کا کہنا ہے کہ یہ سب گریٹر اسرائیل(سلطنتِ داؤد علیہ السلام) کے مورثی علاقے ہیں. مطلب ان علاقوں پر جن میں داؤد علیہ السلام حکومت کرتے رہے ہیں(جنکے دور حکومت کے بارے انکا کہنا ہے کہ وہ ساڑھے نو سو سال قبل مسیح میں یہاں ان علاقوں پر حکومت کرتے رہے ہیں)۔
اس نظریہ پر وہ ایک عبرانی عبارت بھی بیان کرتے ہیں جو انکے نزدیک الھامی ہے اور بائبل سے لی گئی ہے اس میں بنی اسرائیل کیساتھ دیگر قبیلوں سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ”دریائے مصر سے دریائے فرات تک کے علاقے، یہ فینیوں کا، قینزیوں کا، قدمونیوں کا، اور حِیتیوں کا، فِریّزیوں کا، رفائیم کا، اموریوں کا، کنعانیوں کا، جِرجاسیوں کا، اور یبوسیوں کا ملک ہے۔”
صیہونی اکابرین نے صیہونی پروٹوکولز کو مرتب کرتے وقت واضح انداز میں یہ مؤقف اپنایا تھا کہ ان کے مورثی علاقوں پر صرف انہی کا حق ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے 1967ء میں مسجدِ اقصیٰ پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیل کے چیف ربی نے کہا تھا:
مسجدِ اقصیٰ پر قبضہ نہایت خوش آئند ہے لیکن اصل خوشی اسی وقت حاصل ہوگی جب ہم مدینہ طیبہ میں اپنے پرانے مکانوں اور علاقوں کو حاصل کرلیں گے، اور مدینہ طیبہ کے ہر ہر باشندے کے ساتھ وہی معاملہ طے کریں گے جو مسلمانوں نے ہمارے بڑوں یعنی بنو قریظہ، بنو قینقاع، بنو نضیر اور اہلِ خیبر کے ساتھ کیا تھا۔”
خیر جو بھی ہو ریاستوں اور انکے بنانے والوں کا ہمیشہ سے ہی ریاست کے بنیادی مقصد میں یہی خواب رہا ہے کہ اپنا رقبہ بڑھایا جائے اور یہ کوئی نئی بات نہیں.ہر ملک ہی اپنا ٹیریٹری ایکپینشن کا نظریہ رکھتا ہے، چاہے اکھنڈ بھارت ہو، متحدہ سوویت یونین ہو یا گریٹر اسرائیل یہ ریاستوں کے جیوگرافائی بیانیے کے مقدمات ہی ہوتے ہیں۔
مسئلہ تب ہوتا ہے جب ان مقدمات میں مذھبی پہلوؤں کو سیاسی مفاد کیلئے شامل کرلیا جاتا ہے۔ گریٹر اسرائیل میں اور اکھنڈ بھارت میں صیہونیت اور ہندوتوا دونوں ہی اپنے میں سیکولر لوگ ہیں لیکن سیاسی بیانیہ انکا مذہبی ہوتا ہے.جو منافقت اور مفاد پرستی کی سب سے بڑی کھیپ ہے۔
ہم نے پہلے بھی بارہا اس پر کئی ایک دلائل دیے ہیں کہ صیہونیت ایک سیکولر نظریہ ہے اور کئی ایک یہودی علماء اور ربی انکی مخالفت کرتے ہیں اور یہودی مصادر کے مطابق صیہونی خدا اور تورات کے باغی ہیں۔ اس پر موجودہ دور کے یہودی علماء بھی مخالفت کرتے رہتے ہیں اور انکی ویڈیوز اور کتابیں بھی موجود ہیں۔
ربی ایلزار شچ(Rabbi Elazar Shach)ایک مشہور یہودی رہنما تھے.ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے جنازے میں چار لاکھ لوگ شریک تھے۔ ان کی عمر سو سال سے زیادہ رہی تھی۔ یہ صیہونیت(Zionism) کے سخت ترین مخالف تھے۔
اسرائیل کے فلسطین اور غزہ پر قبضوں کی بھی مخالفت کرتے تھے۔ان کا ماننا تھا کہ آہستہ آہستہ یہودیوں کو ان علاقوں کو چھوڑنا چاہیئے جس پر اسرائیلی قبضہ ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ہالوکوسٹ(Holocaust) یہودیوں کے صدیوں کے گناہوں کی سزا تھی۔ سیکولرزم کے بہت ہی زیادہ خلاف تھے۔ کہا کرتے تھے کہ اگر یہودی سیکولر بنتے گئے تو ایک اورہالوکوسٹ(Holocaust)آئے گا۔

عمیر رمضان