گزرے سال کے لمحات

گزرے سالوں کے لمحات میں ایک لمحہ وہ بھی تھا کہ جب رب تعالی نے فرمایا تھا۔
آدم تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور اس میں جہاں سے چاہو جی بھر کر کھاؤ البتہ فلاں درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ظالم بن جاؤ گے ۔لیکن شیطان نے ان کو پھسلا دیا اور جنت سے نکلوا دیا ہم نے کہا اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو زمین میں تم ایک مقررہ وقت تک رہو گے اور فائدہ اٹھاؤ گے۔( سورت البقرہ )
یوں گزرے سالوں کے لمحات میں بابا اور اماں نے جنت کو کھو دیا لیکن پھر بہت جلد انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے توبہ کی تو اللہ نے ان کی توبہ کو قبول کر لیا۔ کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالٰی ہے
” بلاشبہ وہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے” (البقرہ)

اور پھر گزرے سالوں کے لمحات میں وہ لمحے بھی تھے جب بڑی بڑی قوموں نے اللہ کی نافرمانی کی تو اللہ نے بھی ان کو سخت عذاب میں مبتلا کر کے نیست و نابود کر دیا اور آنے والے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بھی بنا دیا۔
اور یوں گزرے سالوں کے لمحات میں وہ لمحے بھی تھے کہ جب اللہ کے کسی برگزیدہ نبی، رسول اور بندوں سے کوئی خطا ہو جاتی تو وہ بابا آدم اور اماں حوا کی طرح اللہ رب العالمین سے معافی مانگتے تو اللہ رحمن بھی ان کی توبہ کو قبول کر کے معاف فرما دیتا ۔
اس طرح یہ سلسلہ چلتا گیا اولاد آدم سے خطائیں ہوتی گئیں۔۔۔
کچھ نے معافی مانگ کر اللہ کو پا لیا اور کچھ نے خطاؤں پر ڈٹ کر اللہ کو ہمیشہ کے لیےکھو دیا۔
گزرے سالوں کے لمحات میں ہمارے لمحے بھی کچھ ایسے تھے جس میں ہم نے اللہ کی نافرمانیاں کر کے اسے ناراض کر دیا۔ اس کی قائم کردہ حدوں کو توڑ کر شیطان کے ساتھی بن گئے۔ اس کی عطاؤں پر شکوے کیے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو بڑھاتے گئے۔۔۔۔
لیکن ان سب کے باوجود اس نے ہمارے دلوں میں معافی کی طلب پیدا کی ،ہمیں خطاؤں پر شرمندہ ہونا سکھایا، معافی کے طریقے سکھائے ۔اور پھر اس نے ہمیں ایسے لوگوں سے ملوایا جنہوں نے ہمیں اللہ سے محبت کرنا سکھائی ،قرآن کے ساتھ جوڑا اور یہ بتایا کہ گناہ کر کے معافی مانگنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے۔
اور یوں گزرے ہوئے سال کے لمحات میں ہم نے گناہوں کی معافی مانگ کر رب العالمین کو پا لیا۔۔۔(الحمدللہ)

تحریر: رئیسہ صدیق