فضا میں عجیب طرح کی گھٹن ہے، دَم گُھٹا جاتا ہے، مدقوق، اور مخدوش سیاسی ماحول میں سانس لینا تک دوبھر ہو گیا ہے۔ہر طرف نفرتوں کی یلغار ہے، چہار سُو ایک دوسرے کی تحقیر و تذلیل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جا رہی۔کئی ماہ بِیت چلے، ایک طرف چور، ڈاکو اور لٹیرے کی بازگشت ہے تو دوسری سمت غدار اور دہشت گرد کی صدائیں سمع خراشی کر رہی ہیں۔صبح سے لے کر رات گئے تمام ٹی وی ٹاک شوز میں یہ سیاست دان اپنی جماعت کا دفاع اور مخالف کی سرکوبی کرنے کے اشتعال انگیز باتیں کرتے رہتے ہیں۔اپنی سیاسی دکان داری چمکانے کے لیے یہ لوگ ٹی وی چینلز پر نازیبا گفتگو تک کرنے میں تامّل نہیں کرتے، جوش ملسیانی کا نصیحت آموز شعر ہے۔
چھوڑ دو غصّے کی باتیں، اشتعال اچھا نہیں
اتنا رنج، اتنا گِلہ، اتنا ملال اچھا نہیں
ایک سیاسی جماعت کے نزدیک مُلک کو بچانے کے لیے انتخابات فوراً منعقد کروانا ضروری ہے تو دوسری سمت پاکستان کی معاشی استحکام کے لیے اکتوبر میں انتخابات کروانا ناگزیر ہیں۔ہر سیاسی قائد اور کارکن کے جذبات و احساسات میں ہمکتے بلکہ دہکتے نفرتوں کے الاؤ میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔بات اب الزام دھرنے اور دشنام طرازی کرنے سے کہیں آگے بڑھ گئی ہے۔سَر پھری عداوتیں سَر چڑھ کر زبان طعن و تشنیع دراز کرنے لگی ہیں، لب و لہجہ اِس قدر بغاوت پر امڈ آیا ہے کہ اتنا بھی لحاظ نہیں رکھا جا رہا کہ کل کلاں مذاکرات ہی کی میز پر باہم مل بیٹھنے پر مجبور ہوگئے تو کس منہ سے ایک دوسرے کا سامنا کریں گے؟ بشیر بدر نے کہا تھا:-
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجایش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
سوختہ جاں عوام کی سوختہ جبینوں پر کَل بھی درد و الم کُھدے تھے اور آج بھی کرب و اضطراب گڑے ہیں۔مہنگائی کل بھی عوام کی بوٹیاں نوچ رہی تھی اور آج بھی جینا محال کیے جا رہی ہے۔گذشتہ سال ہی کی بات ہے جب پی ڈی ایم کے لشکر کے سینے میں مہنگائی کا درد اٹھتا تھا اور آج پی ٹی آئی کی چھاتی میں مہنگائی کی ٹِیسیں انھیں بد حال کیے ہوئے ہیں۔جب جب یہ لوگ اقتدار سے الگ ہوتے ہیں پھر انھیں قوم بھی یاد آتی ہے اور قوم کا درد بھی ان کے دلوں میں کلبلانے لگتا ہے۔اقتدار سے علاحدہ ہوتے ہی ان کا پورا وجود قوم کے درد سے لبریز ہو جاتا ہے اور اقتدار میں آتے ہی انھیں قوم یاد رہتی ہے نہ قوم کی آنکھوں سے بہتا کوئی آنسو ان کی نیندوں میں خلل ڈالتا ہے۔عجبیب طریقے سے قوم کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے کہ جب تحریکِ انصاف اقتدار میں تھی تو نون لیگ کا اتحادی گروہ یہ باور کرواتا تھا کہ ہمارے دور میں مہنگائی کی شرح کم تھی اور آج جب پی ڈی ایم کا جتّھا اقتدار میں ہے تو تحریکِ انصاف گَلے پھاڑ پھاڑ کر عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے کہ ہمارے تابناک دورِ حکومت میں مہنگائی کی شرح کم تھی۔یہ کوئی اتنی دانش اور فہم و ادراک میں گندھی منطق ہر گز نہیں ہے کہ جسے سمجھنا دشوار ہو، ظاہر ہے بعد میں جو بھی حکومت آئے گی اس کے دور میں مہنگائی کی شرح زیادہ ہی ہو گی۔ان سیاسی جماعتوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اقتدار سے الگ ہوتے ہی ان کے اذہان میں ملک و قوم کو تباہی سے نکالنے کے عقل و دانش سے معمور منصوبے جگمگانے لگتے ہیں اور اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف ان کی ساری فہم و فراست نوچ کر ان پر ایسی ایسی قدغنیں لگا دیتی ہے کہ انھیں مُلک یاد رہتا ہے نہ قوم کی فکر ان کے ذہن رسا تک رسائی حاصل کر پاتی ہے۔تمام ہی سیاسی جماعتوں نے ساری قوم کی زندگیاں درد اور تلخیوں سے لاد دی ہیں، کلیم عاجز کا بہت عمدہ شعر ہے۔
تلخیاں اِس میں بہت کچھ ہیں، مزا کچھ بھی نہیں
زندگی دردِ مَحبّت کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ سارے سیاسی پہلوان مل کر آج تک ڈالر کو مات نہیں دے سکے، اسحاق ڈار جیسا ” معاشی سپوت “ بھی اپنی ساری سیاسی طاقت کھپا کر آج تک ڈالر کو لگام نہیں ڈال سکا۔سب جانتے ہیں کہ مہنگائی کے دو بڑے اسباب ہیں، ڈالر کی سَرکشی اور پٹرول کی منہ زور قیمتیں۔آج تمام سیاسی جماعتوں کو فقط اقتدار کی فکر کھائے جا رہی ہے، جب کہ ماہ رمضان میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں اتنی زیادہ بڑھا دی گئی ہیں کہ آلام کے مارے عوام سے زندہ رہنے کی ہر آس تک چھین لی گئی ہے۔ٹماٹر رمضان سے قبل 40 روپے کلو تھے اب 100 روپے سے تجاوز کر گئے ہیں، خربوزہ ایک ہی رات میں اتنا معزز ہو گیا ہے کہ 70 روپے کلو سے بڑھ کر 220 روپے کلو ہو گیا ہے۔ماہِ صیام کے آتے ہی بکرے کے گوشت کی قیمتوں کو اس قدر چار چاند لگ گئے ہیں کہ اِس کی قمیت 1500 سے 2000 روپے کلو تک کر دی گئی ہے۔تربوز کی اَہمّیت فوراً ہی اتنی بڑھ گئی ہے کہ 100 روپے کلو اور عام سی کھجوروں کو بھی اتنے بھاگ لگا دیے گئے ہیں کہ 500 روپے کلو کر دی گئی پے۔جوش ملسیانی کا شعر ہے۔
بدنصیبی، بدنصیبی ہے مگر اتنی بھی کیا!
کوئی دن، کوئی مہینا، کوئی سال اچھا نہیں
تحصیل کی سطح پر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کو لگام دینا ہر اسسٹنٹ کمشنر کی ذمے داری ہے، ہمارے شہر کہروڑ پکا کا اسسٹنٹ کمشنر، پٹرول پمپس پر پٹرول کے پیمانے چیک کرنے نکل کھڑا ہُوا ہے مگر اسے سبزی اور پھلوں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کی رتّی برابر پروا نہیں۔نیچے سے لے کر اوپر تک کوئی ایک چارہ گر بھی چارہ گری پر آمادہ نہیں، کوئی ایک بھی مسیحا، مسیحائی کے لیے تیار نہیں، فریاد کریں تو کس سے کریں؟ واویلا کریں تو کس کے سامنے کریں؟ فیض احمد فیض نے کہا تھا:-
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے