موجودہ حالات میں بہت سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے بارے سوءِ ظن کا شکار دیکھا گیا ہے، کوئی کہتا ہے کہ اللہ تو ہماری سنتا ہی نہیں ہے، کسی کا نقصان ہو جائے تو جھٹ سے کہہ دیتا ہے کہ نقصان پہچانے کے لیے اللہ کو میں ہی ملا تھا؟ بھلا میں نے اللہ کا کیا بگاڑا تھا؟
یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے متعلق سوء ظن کے زمرے میں آتی ہیں.
اللہ تعالیٰ کے متعلق سوء ظن رکھنا گناہ ہے
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أعظم الذّنوب عند الله، إساءة الظن به.
الدّاء والدّواء (صـ ٣١٨)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ اس کے ساتھ بدگمانی ہے
جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ راستہ نکلنے کی امید رکھی جائے ، کشادگی کا انتظار کیا جائے، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پرامید رہا جائے
اللہ کی رحمت سے کشادگی کا انتظار کرتے رہنا باعث اجر ہے
شيخ ابن عثيمين رحمه الله فرماتے ہیں:
من انتظر الفرج أُثيب على ذلك الإنتظار؛ لأن انتظار الفرج حُسن ظن بالله، وحُسن الظن بالله عمل صالح يُثاب عليه الإنسان.
[ فتاوى نور على الدرب (٢٢٥)]
جس نے تنگی سے نکلنے کا انتظار کیا اسے اس انتظار کا ثواب دیا جاتا ہے کیونکہ تنگی سے نکلنے کا انتظار اللہ تعالیٰ پے حسن ظن ہے اور اللہ تعالیٰ پے حسن ظن نیک عمل ہے جس پے انسان ثواب دیا جاتا ہے
نوح علیہ السلام صحراء میں کشتی بناتے رہے ،قوم مذاق کرتی رہی
اور جب بھی قوم مذاق کرتی تو اپنے رب پر پورے یقین سے کہتے :
إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ
کہ ایک دن آئے گا یہ کشتی اسی علاقے میں چلے گی پھر ہم بھی تم سے ایسے ہی مذاق کریں گے جیسے تم ہم سے مذاق کر رہے ہو
اور پھر واقعی ایسے ہی ہوا، پانی بھی آیا، کشتی بھی چلی اور دشمن تباہ ہوئے
یوسف علیہ السلام کنویں میں گر رہے ہیں، بظاہر موت کے منہ میں جا رہے ہیں مگر اسی دوران انہیں اپنے رب کی اس بات پر پورا یقین تھا.
لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
کہ اے یوسف! ایک دن آئے گا تو ضرور ہی انھیں ان کے اس کام کی خبر دے گا
اور پھر وہ دن بھی آیا کہ یہی یوسف اپنے انہی بھائیوں کو کہہ رہے تھے :
هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ
کیا تم جانتے ہو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا؟
يوسف : 89
موسیٰ علیہ السلام کی والدہ بظاہر اپنے بچے کو موجوں کے تھپیڑوں کے حوالے کر رہی ہے مگر انہیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر بہت یقین تھا کہ یہ بیٹا میرے پاس واپس پلٹے گا.
وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ
اور نہ ڈر اور نہ غم کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس لانے والے ہیں اور اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں
القصص : 7
کچھ ہی وقت کے بعد لوگوں نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی بچے کو اس کی ماں کی طرف پورے شاہی پروٹوکول کے ساتھ واپس لوٹایا
سمندر اور فرعون کے درمیان پھنسی ہوئی قوم سے موسی علیہ السلام نے کیا خوبصورت جملہ إرشاد فرمایا :
كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ
ہرگز نہیں! بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔
الشعراء : 62
اور پھر واقعی راستے بھی بنے، لوگوں نے دیکھا اور گزرے اور آگے نکلے
میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ پتھر ماررہے تھے، آپ کا جسم لہولہان ہے، پردیس میں ہیں، کوئی حمایت کرنے والا نظر نہیں آرہا
مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے :
بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا
(بخاری : 3231)
مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔
پھر لوگوں نے دیکھا کہ ھند و سند کو اسلام کے تابع کرنے والے محمد بن قاسم اور حجاج بن یوسف رحمهما اللہ انہیں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تھے
دشمن نے شعب ابی طالب میں بند کر دیا ہے معاشی بائیکاٹ ہے فاقے کاٹے جا رہے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پورے یقین سے کہہ رہے تھے :
وَلَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ
اللہ تعالیٰ ہمارے مشن کو ضرور بضرور پورا کریں گے
لوگ ملک بدر کررہے ہیں، ہجرت کی رات ہے، غار میں پناہ لی ہوئی ہے مگر اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں :
أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرَى يَقُولُونَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِينَةُ
بخاری : 1871
“میں ایک ایسا ملک بنانے والا ہوں جو دنیا کے سارے ملکوں پر چھا جائے گا
پیٹ پہ دو دو پتھر باندھ کر بھوک کی کمزوری کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے خندق کھود کر دفاع کیا جا رہا ہے مگر چٹان پر ضرب لگاتے ہوئے اپنے رب پر پورا یقین رکھتے ہوئے فرما رہے ہیں :
یمن فتح ہوگا، شام فتح ہوگا، روم فتح ہوگا اور آج کے بعد دشمن ہمارے اوپر نہیں بلکہ ہم دشمن پر حملہ کریں گے
شاید یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ عروج دینے کے لیے پہلے کمزور کرتا ہے
ابراهيم علیہ السلام کو دیکھ لیں خلیل الرحمٰن بننے سے پہلے آگ سے گزرنا پڑا
یوسف علیہ السلام کو دیکھ لیں عزیز مصر بننے سے پہلے کنویں سے گزرنا پڑا
موسیٰ کو کلیم اللہ بننے سے پہلے پانی سے گزرنا پڑا
اسماعیل کو ذبیح اللہ بننے کے لیے چھری کے نیچے سے گزرنا پڑا
محمد رسول اللہ کو حبیب اللہ بننے کے لیے شعب ابی طالب سے گزرنا پڑا
مایوسی میں ڈوبے انسان کیا کبھی تو نے یہ سوچا
کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ
اللہ نے لکھ دیا ہے کہ ضرور بالضرور میں غالب رہوں گا اور میرے رسول، یقینا اللہ بڑی قوت والا، سب پر غالب ہے ۔
المجادلة : 21
کبھی اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پڑا ہے؟
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ
اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ضرور ہی جانشین بنائے گا
النور : 55
کیا کبھی اللہ تعالیٰ کی یہ بات نہیں سنی پڑھی؟
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔
آل عمران : 139
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو کیوں بھول جاتے ہیں؟
وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ
اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں
آل عمران : 140
بھلا کسی میں طاقت ہے کہ وہ ان وعدوں کو بدل سکے؟؟؟
اللہ تعالیٰ کے متعلق اچھا گمان رکھو گے تو اللہ تعالیٰ اچھا سلوک کریں گے
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
والله الذي لا إله غيره، لا يُحسن عبد بالله ظنه إلا أعطاه الله إياه.
شعب الإيمان (۳۲۲/۲)
اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے کوئی بندہ اللہ کے متعلق اچھا گمان رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے وہی عطا کرتا ہے
اور برا، مایوس-کن گمان رکھو گے تو ویسا ہی سلوک ہوگا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بدو کی عیادت کی اور اسے فرمایا :
لا بَأْسَ، طَهُورٌ إنْ شاءَ اللَّهُ
پریشان نہ ہو اللہ نے چاہا تو یہ مصیبت ضرور ٹل جائے گی
وہ کہنے لگا :
كَلَّا، بَلْ هي حُمَّى تَفُورُ -أوْ تَثُورُ- علَى شَيخٍ كَبِيرٍ، تُزِيرُهُ القُبُورَ،
ہرگز نہیں بلکہ یہ تو ایک بوڑھے شخص پر جوش مارتا ہوا بخار ہے جو اسے قبر تک چھوڑ کر آئے گا
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فَنَعَمْ إذنْ.
ٹھیک ہے پھر ایسے ہی ہوگا
البخاري : 5656
خود اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي
بخاری 121
میں اپنے بندے کے ساتھ ویسے ہی ہوں جیسے وہ میرے متعلق گمان رکھتا ہے
عمران محمدی