’’متکلمین میں سے سب سے زیادہ بہتر طریقے سے حجت بازی کرنے والا، بڑی آسانی سے بات کا بتنگڑ اور اہم ترین بات کو معمولی بنا لینے میں ماہر ہے۔ آپ دیکھیں گے کبھی حجت و بیان لیے روافض کے خلاف عثمانیوں کا ساتھ دے رہا ہوگا اور کبھی اہلُ السنہ اور عثمانیوں کے خلاف زیدیوں کی پشت پناہی کر رہا ہو گا، کبھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تفضیل ظاہر کرے گا اور کبھی انہیں مؤخر کر دے گا۔
ایک ہی جگہ پہلے کہے گا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں فرمایا۔ پھر ساتھ ہی ابن الجماز اور اسماعیل بن غزوان کے فحش اقوال نقل کرے گا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تو ایسی کتاب میں ذکر ہی شایانِ شان نہیں جس میں ان دونوں کا ذکر ہو، چہ جائیکہ ایک ہی ورقے یا ایک دو سطر کے بعد انہیں ذکر کیا جائے۔
کتاب لکھتا ہے، اس میں مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کے دلائل ذکر کرتا ہے جب رد کی باری آتی ہے تو صرفِ نظر کرتا ہے یوں لگتا ہے جیسے اس کا مقصد ہی کمزور مسلمانوں کو شک میں ڈالنا اور عیسائیوں کو بتانا ہو کہ یہ بھی تمہاری دلیل بن سکتی ہے۔ نوخیز لڑکوں اور نبیذ کے رسیا لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کو اپنی کتاب میں مضحکہ خیزیوں اور فضولیات کی بھر مار کر رکھی ہے۔

مزید پڑھیں:  سلفی حضرات کی اقسام 

حدیث کا مذاق اڑاتا ہے جو کہ اہلِ علم سے مخفی نہیں۔ جیسے اس نے مچھلی کے جگر، شیطان کے قرن اور حجر اسود کا ذکر کیا کہ یہ سفید تھا اسے مشرکین نے سیاہ کر دیا، اب مسلمانوں پر واجب تھا کہ اسے دوبارہ سفید کرتے وغيرہ وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امت کا سب سے بڑا جھوٹا اور حدیثیں گھڑنے والا تھا۔ جسے یقین ہو کہ وہ اپنے لکھے کا جواب دہ ہے تو وہ کبھی ایسی متضاد حرکتیں نہیں کرتا اور باطل کی یوں آبیاری پر طاقت صرف نہیں کرتا۔‘‘ (تاویل مختلف الحديث، ص: ١١١ – ١١٢، ملخصا)

اس طرح آج بھی اگر کوئی مبادیات دین و شریعت کا استہزا کرتا ہے تو اس کے رد میں بھی اہل حق کو کھل کر سامنے آنا چاہیے۔ سلف جب کسی کا رد کرتے تھے تو وہ کسی کی ملامت سے نہیں گھبراتے تھے ان کے لئے کوئی بھی ایسی شخصیت معزز نہیں تھی جو کسی نہ کسی طرح دین کو بگاڑنے کا کام سر انجام دے رہی تھی ان کے ہاں دین کا دفاع بڑا جہاد تھا اور اس لئے وہ ایسی شخصیات پر ایسا ہی رد کرتے تھے پر ہمارے اس دور میں جب سلف کے اس طریقے کو اپنا کر ایسے لوگوں کا رد کرتا ہے اور ایسے لوگوں ۔۔کی گمراہیوں کو ظاہر کرتا ہے تو اس کو عجیب عجیب القابات سے نوازا جاتا ہے

حافظ محمد طاھر