الحاد اور مذاہب کے درمیان کئی ایک طریقوں سے اثبات اور نفی کے دلائل دینے کی کوشش کی جاتی ہے
اور پھر کسی بھی چیز کے اثبات پر دو طرح کے میتھڈ استعمال کیے جاتے ہیں استقرائی اور استخراجی۔ استقرائی طریقہ کار ہی مذھب اور ما بعد الطبیعیات نظریات میں اپنایا جاتا ہے جو کئی ایک چیزوں پر غور کرکے نتائج تک لیکر جاتا ہے جبکہ ملحدین استخراجی طریقہ سے ثبوت مانگتے ہیں جو ایک بنیادی اعداد و شمار میں اپلائے کیا جاسکتا ہے مثلاً کوئی یہ پوچھے کہ اگر خدا موجود ہے تو سامنے آئے تاکہ ہم اسے اپنے حواس خمسہ سے محسوس کریں جبکہ یہ سوال ہر چیز میں قبول نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ سائنس اور ما بعد الطبیعیات فلاسفی میں بھی کئی ایک چیزوں میں غیر معتبر ٹھہرتا ہے بلکہ نا ممکن بھی ہے۔
بہرحال وجود خدا پر بھی استخراجی طریقہ اپلائے نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی مذھب کا ایسا دعویٰ اور مقدمہ ہے جو استخراجی طریقہ سے ثابت کیا جائے.اور جب مقدمہ ہی ایسا ہے تو آپ اسے کسی اور طریقے سے کیسے ڈیبیٹ کا حصہ بنا سکتے ہیں۔
استقرائی طریقہ کی کئی ایک جہتیں ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کی ڈیفالٹ پوزیشن کیا تھی؟ انسان شروع میں خدا کو ماننے والا تھا یا انکاری تھا؟
اگر تو انسان خدا کو شروع سے مان رہا تھا اور بعد میں کچھ لوگوں نے انکار کیا تو برڈن آف پروف (burden of proof) انکار کرنے والوں پر ہوگا کہ وہ انکار کی توجیہات لائیں اور اس نظریہ کو غلط ثابت کریں!
لیکن اگر انسان خدا کو شروع سے نہیں مان رہا تھا یعنی انسانیت کی ابتدا الحاد سے ہوئی ہے اور بعد میں لوگوں نے خدا کے وجود کو ماننا شروع کیا تو پھر برڈن آف پروف مذہب کے ماننے والوں پر ہوگا کہ وہ خدا کے وجود کے دلائل لائیں۔
مزید پڑھیں: الحاد کے معانی و مفاہیم
ایک بات یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ الحاد سیدھا خدا کے انکار تک پہنچنے کا نام نہیں بلکہ بعض دفع یہ وجود خدا کے بارے کئی ایک بنیادی عقائد کی نفی سے شروع ہوتا ہے مثلاً جنت جھنم اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جیسے عقائد پر تشکیلی نوعیت کے اعتراضات بھی الحاد کے راستے کے اھم پوائنٹس ہیں جس سے گزرتے ہوئے خدا کے وجود کی نفی مستلزم ہوجاتی ہے۔
اب آتے ہیں کہ الحاد پہلے تھا یا مذھب؟ تو ہمارے پاس موجود ذرائع کے مطابق الحاد رومن فلسفہ میں مل جاتا ہے جو کہ محض دو ہزار سال پرانی ہے جبکہ ہماری معلوم تاریخ میں مذہب ہی مذہب ہے۔ خدا کے نام پر بنائے گئے کتنے ہی معبد اور بت آج بھی ہزاروں سال بعد موجود ہیں۔ ہماری تاریخ ایسے کسی دور کو جانتی ہی نہیں ہے جب انسان تھے لیکن خدا نہیں تھا۔ اس میں بھی ملحدین کو تاریخ سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ایک ایسا دور بھی گزرا ہے جب انسان نے خدا کا تصور ایجاد نہیں کیا تھا اور ایسا ابھی تک ثابت نہیں ہوا۔
انسان کی معلوم تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ خدا ہمیشہ سے انسان کے ساتھ رہا ہے۔ ہزاروں سال پہلے بھی افریکہ، ایشیا اور یورپ میں بسنے والے تمام انسانوں کے ہاں تصور خدا پایا گیا ہے اگرچہ خدا کے بارے نظریات الگ الگ ہوسکتے ہیں لیکن خدا کے وجود کے بارے تو انسانوں کی پہلی تین چار قسمیں جو آج سے پچیس ہزار سال پہلے اس دنیا میں رہتی تھیں ان میں بھی تصور خدا پایا جاتا رہا ہے.اور یہ وہ ثبوت ہیں جو تہذیب اور تاریخ کو جاننے والوں کی تحقیق میں آئے ہیں نہ کہ محض مذہبی کتابوں کے حوالاجات ہیں اور یہ سب دلائل ثابت کرتے ہیں کہ خدا انسان کی اصل ہے وہ اسے اپنے ساتھ مکمل انسانی تاریخ میں ساتھ لیے چلتا ہے اگرچہ اسکے خدا کے بارے تصورات میں تنوع ہے۔
اب اگر آپ انسانوں کی تاریخ سے روگردانی کرتے ہوئے الحاد کو ڈیفالٹ پوزیشن پر رکھتے ہیں تو اس معاملے میں آپ کو پوری انسانیت کو ایک طرف کرنا ہوگا اور پھر اس پوری کائنات کی ایک ایسی توجیہ کرنی ہو گی جس میں خدا شامل نہ ہو۔ اس کے بعد خدا کا انکار کیا جا سکتا ہے۔جو کہ اب تک ثابت نہیں ہوسکا فلھذا الحاد کو انسانی تاریخ میں ڈیفالٹ پوزیشن پر رکھنا ایک اسٹیبلشڈ نظریہ اور انسان کی ایسی تاریخ کی بلا دلیل تردید ہوگی جو خود ہماری بنیاد ہے۔
عمیر رمضان