سوال

ایک شخص انسٹال منٹ (قسطوں) کا کاروبار کرتا ہے۔اس نے کسی آدمی کو قسطوں پہ فریزر دینا ہے،لیکن جسکو دینا ہے وہ کراچی ہے، اب یہاں لاہور سے فریزر بھیجنا مشکل ہے تو وہ ا س کے پیسے ارسال کردیتا ہے۔ مثلا.50000روپے اپنے گاہک کو بھیج دیتا ہے، اور وہ کراچی سے پچاس ہزار کا فریزر خرید لیتا ہے۔ اور ہر ماہ واپس پانچ ہزار قسط بھیجتا ہے، لیکن قسطوں کے حساب سے واپس پچاس کی بجائے ساٹھ ہزار کرنا ہوگا۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

قسطوں پر چیز لينا دینا یہ ایک الگ مسئلہ ہے، جو كہ ہمارےنزدیک جائز ہے۔ ليكن صورت مسئولہ میں جوکچھ بیان کیا گیا ہے وہ واضح سود ہے، کیونکہ وہ پچاس ہزار روپیہ دے کر واپس ساٹھ ہزار روپیہ وصول کرتا ہے۔
لیکن پیسہ دے کر اس کے بدلے میں زیادہ پیسے لینا یہ سود ہے اور اس كے ناجائز اور حرام ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔بینک والے بھی ایسا ہی کرتے ہیں اس سے بچنا ضروری ہے، سودى کاروبار کرنے والے کے خلاف سخت ترین وعیدیں آئی ہیں ۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
”جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود کی طرح ہے، حالانکہ اللّٰہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام ،اب جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک جائے تو پہلے جو سود کھا چکا اس کا معاملہ اللّٰہ کے سپرد ہے مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ دوزخی ہیں ، جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے ” ۔ [البقرة:275-276]
مزید فرمایا:
”اے ایمان والو! اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو اگر تم مؤمن ہو۔ اور اگر تم نے سود نہ چھوڑا تو اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ہاں اگر تو بہ کر لو توتمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ ظلم کرو ،نہ تم پر ظلم کیا جائے ۔ ”[البقرة:278-279]
سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہﷺنے فرمایا:

“اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْـمُوْبِقَاتِ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللهِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبٰوا وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْـمُحْصَنَاتِ الْـمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ”. [صحیح بخاری:2726]

”سات مہلک گناہوں سے بچو۔ صحابہ نے پوچھا :اللّٰہ کے نبیﷺ! وہ کون سے گناہ ہیں؟آپ ﷺنے فرمایا :اللّٰہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا ، کسی کو ناحق قتل کرنا ،سود کھانا ،یتیم کا مال کھانا،جنگ کے دن پیٹھ دکھا کر بھاگنا ،پاک دامن اور بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا ”۔
اسی طرح حضورﷺنے فرمایا:

“دِرْهَمٌ رِبًا یَأْکُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ یَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلَاثِیْنَ زنْیَةً”. [مسند احمد: 20951]

”ربا کا ایک درہم جو انسان علم ہونے کے باوجود کھاتا ہے،چھتیس بار بدکاری کرنے سے زیادہ سخت ہے۔”
مندرجہ بالا دلائل کے پیش نظر صورت مسئولہ میں ذکرکردہ کاروبارناجائزاورحرام ہے۔

واللہ اعلم

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ