{ اشعار کی صحت }
کچھ ضرب الامثال اشعار اتنے غلط انداز میں مشہور ہو گئے ہیں کہ متعلقہ شاعر کی کتاب سے رجوع کریں تو اصل شعر یا مصرعے کو پڑھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ ” اہلِ قلم “ کسی بھی شعر کا حلیہ اتنا بگاڑ سکتے ہیں۔مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس مسئلے میں ہمارے بزرگ کالم نگاروں، مصنّفوں اور ادیبوں کو دوش دیا جا سکتا ہے کہ بِنا کسی تحقیق کے، ہمیں غلط سلط انداز میں اشعار پڑھنے کو دیتے رہتے ہیں، کالم لکھنے کے جنون میں مبتلا بعض احباب صحیح یا غلط کے تقاضوں سے بالکل بے پروا ہو کر دھڑا دھڑ بس لکھے جا رہے ہیں۔اِسی جلد بازی میں کسی بھی شاعر کا کہا گیا مصرع یا شعر کھوجنے کی بجائے جو کچھ جیسے ذہن میں آتا ہے اسی کو درست سمجھ کر لکھ دیا جاتا ہے، جب کہ شاعر کا کہا گیا شعر یا مصرع محض پُرانی کتابوں میں گم ہو کر رہ گیا، مثلاً ایک کالم میں یہ شعر لکھا گیا ہے۔
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلشن میں
ہمیں بھی یاد رکھنا چمن میں جب بہار آئے
کچھ لوگ وزن پورا کرنے کے لیے پہلے مصرعے میں ” گلشن “ کی جگہ ” گلستاں “ لگا دیتے ہیں، اسی طرح دوسرے مصرعے کا وزن بھی پورا کر دیا جاتا ہے۔ممکن ہے کچھ شعرا نے حالات یا اپنی ضرورت کے تحت دوسرے مصرعے پر طبع آزمائی کی ہو، مگر وہ شعر جو استاد قمر جلالوی کی کتاب ” رشکِ قمر “ کے صفحہ 42 پر موجود ہے، اس کا پہلا مصرع کتابوں میں کہیں گم کر دیا گیا ہے۔” رشکِ قمر “ شوکت علی اینڈ سنز پبلشرز، ایم اے جناح روڈ کراچی سے 1977 ء میں شائع ہوئی۔استاد قمر جلالوی کا کہا گیا شعر بھی پڑھ لیجیے! اور دیکھیے کہ ہمیں اِس مصرعے سے دُور کر کے کیسی چاشنی اور لذت سے محروم کر دیا گیا۔
قفس کے ہو لیے ہم تو مگر اے اہلِ گلشن تم
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
اِسی طرح کا ایک اور شعر آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کرنے لگا ہوں، اِسے پڑھ کر بھی یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں کہ لوگ اِس شعر کے پہلے مصرعے کو بھی بالکل فراموش کر بیٹھے ہیں۔یہ شعر شاد لکھنوی کا ہے اور ” سُخنِ بے مثال، دیوانِ شاد 1901 ء “ کے صفحہ 112 پر موجود ہے، یہ شعر پڑھ کر آپ کا لطف یقیناً ” دُونا “ ہو جائے گا۔
وصالِ یار سے دُونا ہُوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
ہمارے ایک فاضل مضمون نگار نے محمد دِین تاثیر کا یہ شعر اپنے مضمون میں لکھ دیا ہے، مگر اِس میں معمولی سی تحریف بھی کر دی ہے۔
داورِ محشر مرا نامہ ء اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
آپ محمد دِین تاثیر کی کتاب ” آتش کدہ “ کا صفحہ 166 پڑھیں گے تو پہلے مصرعے میں ” محشر “ کی جگہ ” حشر “ ملے گا۔
داورِ حشر مرا نامہ ء اعمال نہ دیکھ
اِس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
میرزا جواں بخت جہاں دار کا ایک شعر اکثر کالموں میں لکھا ہوتا ہے، لیکن اِس میں بھی اتنی تحریف کر دی گئی ہے کہ صحیح شعر سامنے آنے پر سب کو عجیب سا لگے گا۔
آخر گِل اپنی صرفِ میکدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
1966 ء میں شائع ہونے والے ” دیونِ جہاں دار “ مُرتّبہ ڈاکٹر وحید قریشی۔ناشر: مجلس ترقیِ ادب لاہور، کے صفحہ 124 پر جو شعر موجود ہے، اس کی چاشنی اور لذت ہی منفرد ہے، آپ بھی مزہ لیجیے!
آخر گِل اپنی صرف درِ میکدہ ہوئی
پہنچے وہاں ہی خاک جہاں کا خمیر ہو
ایک بزرگ کالم نگار نے اپنے کالم کا عنوان اِس مصرعے کو بنا دیا ہے۔
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے
یہ مصرع داغ دہلوی کا ہے مگر اُنھوں نے مصرعے کے شروع میں ” بڑی “ کی جگہ ” بہت “ کہا ہے۔” دیوانِ داغ “ جو فروری 1961 ء میں شائع ہُوا، اس کے صفحہ 82 پر یہ شعر موجود ہے۔
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
داغ دہلوی کی اِسی غزل کا مقطع بھی ضرب المثل شعر بن چکا ہے، ملاحظہ فرمائیں!
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کَہ دو
کہ آتی ہے اُردو زبان آتے آتے
قبرستانوں میں کبھی جائیں تو بچوں کی قبروں پر اکثر یہ شعر لکھا نظر آتا ہے۔ریختہ پر بھی یہ شعر اِسی انداز میں موجود ہے۔
پھول تو دو دن بہارِ جاں فزا دِکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کِھلے مرجھا گئے
لیکن اگر آپ ” دیوانِ ذوق “ کا صفحہ 171 کا مطالعہ کریں گے تو پہلا مصرع پڑھ کر نہ صرف حیران رہ جائیں گے بلکہ شعر کا لطف بھی دو بالا ہو جائے گا۔
گُل بھلا کچھ تو بہاریں اے صبا دِکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن کِھلے مرجھا گئے
گذشتہ ہفتے ہمارے ایک دیرینہ مہربان نے امیر مینائی کا یہ شعر لکھ دیا ہے، کیا کریں کہ یہ شعر زبان زدِ عام بھی اِسی طرح ہے۔
قریب ہے یارو روزِ محشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستین کا
امیر مینائی کے اِس شعر کے پہلے مصرعے میں دو تبدیلیاں کر دی گئی ہیں، پہلی یہ کہ امیر مینائی نے ” یارو “ کی جگہ ” یار “ اور دوسری یہ کہ ” خون “ کی بجائے ” قتل “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔” دیوانِ امیر، 1922 ء “ کے صفحہ 98 پر یہ شعر موجود ہے۔
قریب ہے یار روزِ محشر، چُھپے گا کشتوں کا قتل کیوں کر
جو چُپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا
مصطفیٰ زیدی کے ایک ضرب المثل شعر کو ہمارے ایک معرف کالم نگار نے غلط لکھ دیا گیا ہے۔
اِنھی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
دوسرے مصرعے میں لفظ ” کوئی “ لگا کر زیادہ نہیں تو پچاس فی صد شعر کی چاشنی ضرور کم کر دی گئی ہے۔مصطفیٰ زیدی کی کتاب ” شہرِ آذر “ ماورا بُکس لاہور کے صفحہ 160 پر دوسرے مصرعے میں ” کوئی “ کی بجائے ” کہیں “ ہے, یعنی:-
اِنھی پتّھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے
اردو ادب سے گہرا شغف رکھنے والے ایک ممتاز کالم نگار نے حیدر علی آتش کا شعر غلط لکھ دیا ہے، آپ غلط شعر کی بجائے یہ درست پڑھ لیں جو ” کلیاتِ آتش، 1929 ء “ کے صفحہ 398 اور 1844 ء میں شائع ہونے والے ” دیوانِ آتش “ کے صفحہ 302 پر موجود ہے۔
غم و غصّہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
اسی غزل کے یہ دو اشعار بھی بہت مشہور ہیں۔
زمینِ چمن گُل کِھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے