ملحدین کی محفلوں میں سب سے زیادہ دہرائے جانے والا جملہ آپکو یہ ملے گا کہ اس کائنات کا واقعتا اگر کوئی خالق مان لیا جائے تو پھر یہ سوال کھڑا ہوجاتا ہے کہ اس خالق کا خالق کون ہے ؟ خالق خود بغیر کسی خالق کے کیسے موجود ہے ؟
یہ اعتراض آپ کو ماضی قریب کے مشہور فلسفی رچرڈ ڈاکنز کی کتاب The God Delusion میں بھی ملتا ہے۔ جبکہ عقل عام یہ کہتی ہے کہ جب ایک وضاحت کسی چیز کی کامل توجیہ کردیتی ہو تو پھر اس توجیہ کے لئے مزید کسی توجیہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مثلاً آج سے چالیس ہزار سال پہلے کی کوئی کشتی برآمد ہو اور اسکی کاربن ڈیٹنگ ثابت کردے کہ یہ چالیس ہزار سال پرانی ہی ہے اور اس کشتی میں کیل لگے بھی نظر آئیں تو کوئی بھی یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہے کہ آج سے چالیس ہزار سال پہلے کا انسان لکڑیاں جوڑ کر کشتی بنانا بھی جانتا تھا اور اس دور میں کیل بھی استعمال ہوتے تھے ۔ یہ وہ نتیجہ ہے جس نے کشتی کی موجودگی اور کاربن ڈیٹنگ دونوں کی توجیہ کردی۔ اس توجیہ کو یہ کہہ کر زائل نہیں کیا جاسکتا کہ چونکہ ابھی تک یہ سوال حل ہونا باقی ہیں کہ درخت کس آلے سے کاٹے جاتے تھے اور پھٹے کس آلے سے بنائے جاتے تھے اس لئے جبتک یہ سوال حل نہ ہوں اس وقت تک یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ اس دور میں انسان کشتی بنانا جانتا تھا ۔
یہ موجودہ کائنات ایک بگ بینگ کے بعد علت و معلول ( cause and effect) کے ساتھ موجودہ حالت تک پہنچی ہے۔ اور اس قانون علت ( causation ) میں یہ بات خود ہی مضمر ہے کہ اسکی زنجیر کا کوئی آخری سرا بھی ضرور ہونا چاہئے ورنہ یہ کائنات ہی آج موجود نہ ہوتی۔ فرض کریں کہ کائنات کی موجودہ حالت سے لیکر بگ بینگ کے ذریعے زمان و مکان کے پیدا ہونے تک ہر ہر علت ایک فوجی ہے ۔ ایک ایسی فوج جسمیں آخری فوجی نے گولی چلانی ہے اور وہ ایسا اپنے سے اوپر والے فوجی ( علت) اور وہ اپنے سے اپر والے فوجی اور وہ اپنے سے اوپر والے فوجی اور وہ اپنے سے اوپر والے فوجی ( چاہے اس چین آف کمانڈ یا علت و معلول کی چین کو لاکھوں تک پیچھے لے جائیں ) کی اجازت کے بغیر گولی چلانے کا حکم نہیں دے سکتا۔اب اگر اس چین آف کمانڈ کو لامحدود لمبا مان لیا جائے تو نہ ہی کبھی اسکا آخری سرا آئے گا اور نہ ہی دوسرے سرے پر موجود فوجی کبھی گولی چلا سکے گا۔ کسی اس طرح کی چین آف کمانڈ کے ہوتے ہوئے جیسے ہی گولی چلے گی تو نتیجہ نکالنے والا یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہے کہ یہ چین آف کمانڈ لا محدود نہیں ہے۔ یعنی اس چین کے آخری سرے پر کوئی ایسا بیٹھا ہوا ہے جو گولی چلانے کا حکم دینے کے لئے چین آف کمانڈ کا آخری سرا اور ان سارے علل کی آخری علت یعنی علت العلل ہے۔ اب اگر کائنات علت و معلول کی چین آف کمانڈ کا نام ہی ہے تو پھر تو آفاق و انفس کی صورت میں چلی ہوئی گولی ہمارے آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ اس لئے اسی قانون کے تحت خود بخود ثابت ہوا کہ اس کے آخری سرے سے باہر کوئی موجود تھا جو خود اس قانون کے تحت نہیں تھا ورنہ گولی ہی نہ چل سکتی۔ وہی خدا ہے جو اس علت و معلول کے جنگل سے بالکل یکتا ہے اور خود سے قائم ہے۔ نہ ہی وہ کسی علت کا معلول ہے اور نہ ہی اس کا کوئی کفو ہے۔

کامران الٰہی ظہیر