انسان جب توقعات بڑھاتا ہے تو بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اسے امیدیں باندھنے میں مایوسی نہ ہوئی ہو!
ضروری نہیں کہ توقعات لوگوں سے ہی لگائی جائیں حالانکہ لوگوں کی بھی اقسام ہیں کچھ قریبی ہیں تو کچھ ابھی دائرہ حُب میں داخل نہیں ہوئے ہوتے صرف پہچان اور چند کاموں کی وجہ سے وابستہ ہوتے ہیں جبکہ کچھ کیساتھ تو ہمارا تعلق صرف عجلت اور گہما گہمی میں ہی بنا ہوتا ہے جو ریت پر بنی دیوار کی مانند ہوتا ہے.لیکن توقعات لگانے میں انسان بہت کم کوشش کرتا ہے کہ کس سے کس نوعیت کی توقعات لگائی جائیں؟ نتیجتاً مایوسی ہوتی ہے.
پھر یہ تو لوگوں کا معاملہ ہے انسان جسکی فطرت میں ہی عجلت ودیعت کردی گئی ہے اور جو صرف خوشنمائی اور رنگینیوں کا ہی خواہاں ہے، وہ اپنے سے بھی ایسی توقعات لگا بیٹھتا ہے جو صرف مشکل ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ دیو مالائی اور خیالی ہوتی ہیں.
ایک عقلمند اور سچے انسان کا رویہ ایسا نہیں ہوتا وہ ہر معاملے میں بہت زیادہ پرجوش بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی بہت زیادہ نیگیٹو ہوتا ہے کہ ہر چیز میں ہی تاریکی اور بے بسی کا مظھر پیش کرے! وہ جب بھی توقعات لگاتا ہے تو ساتھ میں فطری خدشات بھی ذھن میں رکھتا ہے اور کبھی بھی حتمی طور پر نہیں سوچتا کہ یہ ایسے ہی ہوگا.!
انسان کا سب سے پہلے اپنے ساتھ سمجھوتہ کرنا اور دونوں پہلوؤں کو ساتھ رکھنا ضروری ہے اور جب خود وہ ذھنی طور پر قانع اور کفایت شعار بن جاتا ہے تو دوسروں کے ساتھ بھی ڈیل کرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے بالکل بہت آسان ہوجاتا ہے.
ایک اچھا مائنڈ سیٹ ہی انسان کو پر کشش اور پر امید بناتا ہے ہم کیا ہیں یہ انحصار کرتا ہے اس بات پر کہ ہم کیا سوچتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں؟! نہ کہ اس بات پر ہماری شخصیت ماپی جاسکتی ہے کہ لوگ ہمارے بارے کیا جذبات رکھتے ہیں کیا الفاظ رکھتے ہیں.
آپ خود ہی سوچیں کہ انسان اپنے بارے بہت مشکل سے جان پاتا ہے اور عرفانِ نفس بعض دفعہ اتنا پیچیدہ ہوتا ہے کہ انسان خود حیران رہ جاتا ہے کہ یہ میں ہوں؟ بھلا ایسا ہوسکتا ہے؟ تو لوگ کیسے دوسرے کے بارے اتنا ایکوریٹ تجزیہ کر سکتے ہیں؟!
اس لیے ہمارا منطقی استدلال ہی اس چیز کو قبول کرنے کو تیار نہیں کہ لوگوں کے جذبات اور خیالات ہمارے بارے صحیح تجزیہ رکھ سکتے ہیں۔
لوگ پریشان ہیں کہ میاں بیوی کا امتزاج نہیں ہوتا یا امتزاج تو ہوتا ہے لیکن بنتی نہیں اور ایک دوسرے سے نالاں رہتے ہیں. اسکی بنیادی وجہ توقعات لگانے میں غلطی کرنا اور پھر زیادہ توقعات کی وجہ سے غلط ڈیلنگ کرنا اور بالآخر آپسی سمجھوتہ کا خراب ہونا، رشتوں کا کوئی معاہدہ نہیں ہوتا یہ تو سچے جذبوں اور سمجھوتوں پر چلتے ہیں کیونکہ یہ مادی چیز نہیں ہوتے کہ اسکو اس طرح دیکھا جائے یہ انسانیت کی ویلیوز ہوتے ہیں اور خوشیوں کا خاص سامان ہوتے ہیں ڈھیروں احساسات کا مخزن ہوتے ہیں.!
ہوسکتا ہے کہ کچھ اور بھی عادتیں اور رویے تعلقات میں مُخِل ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر ایک دوسرے سے ناخوش رہنے کی وجہ یہی ہے باقی سب چیزیں جزوی حیثیت رکھتی ہیں جنکا انحصار بھی اسی پر ہے.!
جن رشتوں کے درمیان باقاعدہ وعظ کرکے اصول متعین کرنا پڑیں کہ یہ لمٹس ہیں اور یہ میرے مزاج کے خلاف چیزیں ہیں وہ تعلقات اور رشتے کیسے خوشیاں لا سکتے ہیں؟! آپ خاص رشتوں کو اس طرح محسوس کریں کہ وہ آپکی روح کا حصہ ہیں آپکا اپنا اثاثہ ہیں اور اپنے آپ کو سمجھانے کیلئے باقاعدہ لیکچر نہیں دینا پڑتا انسان خود ہی اپنی پسند اور ناپسند کو سمجھ لیتا ہے یعنی زیادہ سیریس ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی چیزوں کو اس طرح دیکھنے سے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ چیزیں اپنی جگہ خود بناتی ہیں بس آپ کو محسوس کرنا ہوتا ہے، وضاحتیں اور صفائیاں دینا ایک عجلت پر مبنی عبارتیں ہیں انکا خوشیوں اور رشتوں سے کوئی تعلق نہیں!
آپ سوچیں کہ بہن بھائی آپس میں کئی سال اکٹھے رہتے ہیں اور خوش رہتے ہیں ضروری نہیں کہ یہ والدین کا کمال ہو، ان کے خوش اور مطمئن رہنے کی وجہ ایک فطری ذہنیت ہے کہ کبھی ایک دوسرے سے ایسی توقعات نہیں رکھتے کہ جس کے ٹوٹنے کے بارے انہیں خدشات ہوں وہ لڑتے بھی ہیں اور ناراض بھی ہوتے ہیں لیکن کبھی ایک دوسرے سے یہ شکوہ نہیں کرتے کہ میں نے تم سے یہ توقع لگائی تھی تم تو ایسے نکلے!
وہ ایک دوسرے کے بارے اتنا اوور پروٹیکٹو نہیں ہوتے بس ایک دوسرے کے احساسات کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں اور خوبصورت ہار کی طرح پرکشش ہوتے ہیں. وہ ایک دوسرے سے سرمایہ دارانہ مزاج کی طرح پورا پورا حساب نہیں رکھتے بلکہ ادھار ہی رکھتے ہیں کبھی اونچ تو کبھی نیچ اور ایک پل بھی یہ نہیں سوچتے کہ مجھے نقصان ہوا ہے اور بدلہ لینے کا ارادہ ہو.!
ہاں جب یہی بہن بھائی بڑے ہوتے ہیں انکے گھر الگ ہوتے ہیں تو پھر یہ ایک سرمایہ دار انسان کی ذہنیت کی طرح ایک دوسرے سے توقعات لگاتے ہیں اور نتیجتاً ایسے ہی رویے اپناتے ہیں کہ جب کبھی ناراضگی ہوجائے تو سالوں سال بولتے نہیں. ایسا کیوں؟ وہ اپنی حیثیت کو منوانا چاہتے ہیں اور دوسرے کے بارے سوچتے ہوئے بہت زیادہ سٹرِکٹ ہوتے ہیں اور یہی چیز انکے درمیان دوریاں پیدا کرتی ہے!
انسان جتنے مرضی چالاک ہوجائیں انکے اندر کا بچہ ہمیشہ معصوم ہوتا ہے جب وہ اندر کے بچے کو سننا بند کردیتے ہیں تو ان میں یہ احساس ہی ختم ہوجاتا ہے کہ ہم اصل میں کیا تھے؟ اور کیا بن گئے ہیں؟
خوشیوں کو حاصل کرنے کیلئے بھاگنا نہیں پڑتا وہ خود چل کر آتی ہیں یعنی خوشیاں کوئی ایسی مادی چیز کا نام نہیں کہ جسکو حاصل کرنے کیلئے کھپنا پڑے اور بحث کرنی پڑے یہ تو احساسات اور جذبات کا نام ہے جو آپ محسوس کرتے ہیں اب کتنا محسوس کرنا چاہتے تھے اور کتنا مل رہا ہے یہ چیز آپکی خوشیوں کے معیار کو ماپتی ہے!
سب سے اصل بات یہ ہے کہ آپ خوشیوں کو اپنے طریقے سے سیلیبریٹ کریں جو احساس آپ فیل کر رہے ہیں وہی دراصل خوشی ہے اکثر لوگ اس لیے خوشیوں کو محسوس نہیں کرتے کیونکہ وہ خوشیوں کو دوسروں کے لائف سٹائل اور طریقے سے منانا چاہتے ہیں اور انکو حاصل بھی ویسے ہی کرنا چاہتے ہیں۔
خوشیوں کا کوئی ایک مثالی اور حتمی طریقہ نہیں ہوتا یا کسی کا بنایا ہوا نہیں ہوتا جیسا کہ یہ کوئی فلٹر ہو، یہ طریقہ آپ خود ہی متعین کرتے ہیں اور زندگی ایسے ہی جیتے ہیں آپ کس حال میں ہیں خوشیوں کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں بس خوشیاں تو ان جذبات اور احساسات کا نام ہے جو آپ کے اندر اپنے طریقے سے ہی سرایت کرتے ہیں اور آپکو زندگی کی تازگی محسوس کرواتے ہیں یہی نام ہے کسی بھی حالت میں رہتے ہوئے خوشیوں کو قبول کرنا اور یہی نام ہے شکر کا، کفایت شعاری کا..!

عمیر رمضان