ماضی قریب ہی کے دریچے وا کر کے دیکھیں تو ابھی چند سال قبل تک کتاب ہماری تہذیبی روایات کے ساتھ ساتھ ہماری بہ ترین دوست ہُوا کرتی تھی، وہ دل نشیں ساعتیں ابھی تک ذہن میں محفوظ ہیں، جب کتاب پڑھنے کا ایک جنون ہُوا کرتا تھا، کتاب پڑھے بغیر نیند نہیں آیا کرتی تھی، جی ہاں! رات کے کسی پہر جب نیند آنکھوں سے کوسوں دُور چلی جاتی تو، نیند کی آغوش میں جانے کا واحد ذریعہ کتاب ہُوا کرتی تھی گویا کتاب سب سے قیمتی متاع اور بیش قیمت اثاثہ ہوتی تھی، افتخار عارف کا بہت عمدہ شعر ہے۔
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
وہ ایّام عجیب کیف و سرور میں ڈھلے تھے جب کتاب کے اوراق سے اٹھتی ہلکی ہلکی باس، مشامِ جاں کو تر و تازہ کر جایا کرتی تھی، یہی نہیں بلکہ وہ دل گداز سی مہک کتاب کو بار بار پڑھنے پر بھی مجبور کر دیتی تھی۔وہ دل پذیر ماہ و سال ایسے تھے کہ کتاب کے مطالعے میں انسان اتنا محو ہو جایا کرتا تھا کہ خود کو کتاب کا کوئی کردار سمجھنے لگتا تھا، کتنے ہی لوگ ایسے بھی ہوتے تھے کہ کسی ہرجائی کی بے وفائی کو بھلانے کے لیے بھی کتابوں میں کھو جاتے تھے، جاں نثار اختر نے کیا ہی عمدہ شعر کہا ہے۔
یہ علم کا سودا، یہ رسالے، یہ کتابیں
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں
دنیا میں سب سے زیادہ کتب، چِین میں شائع ہوتی ہیں، اس کے بعد امریکا اور تیسرے نمبر پر برطانیہ ہے۔کتاب لکھنا اور پھر شائع کروانا ایک بہت مشکل اور پیچیدہ کام ہے، انسان کو بہت ساری الجھنوں اور پیچیدگیوں سے گزرنا پڑتا ہے، تب کتاب منصّہ ء شہود پر آتی ہے۔مَیں سمجھتا ہوں کہ کتاب لکھنے اور پھر شائع کروانے سے زیادہ مشکل مرحلہ تب آتا ہے جب کتاب شائع ہو کر بازار میں آ جاتی ہے، پھر دوست احباب کے جو رویّے ہوتے ہیں وہ بہت ہی تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوتے ہیں۔عام طور پر کتاب کی قیمت پانچ سات سو روپے تک ہوتی ہے جو کہ ایک کلو گوشت سے بھی کم ہے۔کتاب کی اشاعت کے بعد جو جتنا قریبی دوست ہوتا وہ اتنی ہی بڑی آزمایش میں مبتلا کرتا ہے۔کسی بھی مصنف کے لیے کتاب لکھنا اور پھر شائع کروانا بڑا ہی جاں گسل مرحلہ ہوتا ہے اور یہ بھی ممکن نہیں ہوتا کہ سب دوستوں کو کتاب مفت میں تقسیم کر دی جائے، کیوں کہ اس طرح کی تقسیم کے بعد اگلی کتاب کی اشاعت شدید متاثر ہونے لگتی ہے۔آج کتابوں کے متعلق لوگ اتنے کنجوس ہو چکے ہیں کہ ہر شخص ہی یہ آس لگائے بیٹھا ہوتا ہے کہ کتاب اسے بہ طورِ تحفہ دے دی جائے، حتیٰ کہ اب تو سوشل میڈیا کے دوست بھی یہ فرمایشیں کرتے ہیں کہ انھیں کتاب ہدیہ کی جائے، گویا یہ سابقہ تمام رویّوں سے کہیں بڑا ستم ہوتا ہے، اس لیے کہ کتاب کو بہ ذریعہ ڈاک بھیجنے پر سو روپے سے زیادہ خرچ ہو جاتے ہیں۔اس سلسلے کا ایک اور کرب انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سے دوست احباب یہ توقعات بھی دل میں لیے منتظر ہوتے ہیں کہ کتاب کا مصنف یا مؤلف ان کے گھر انھیں اپنی کتاب خود ہدیہ کرنے آئے گا۔لوگ سوشل میڈیا پر شکوہ کناں بھی ہوتے ہیں کہ ابھی تک ہمیں کتاب ہدیہ کیوں نہیں کی گئی؟ مہنگائی کے سَر پھرے طوفان کے سبب جس تسلسل کے ساتھ کتابوں کی قیمتیں بڑھنے لگی ہیں، اس کے باعث سب کو کتاب ہدیہ کرنا نا ممکن ہو گیا ہے۔اگر آپ ذی شعور ہیں تو آپ ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ اگر پچاس آدمی کوئی کتاب خریدیں گے تو انھیں صرف پانچ پانچ سو روپے ادا کرنے ہوں گے اور اگر کتاب کا مصنف ان سب کو کتاب ہدیہ کرے گا تو اس اکیلے انسان کو 25 ہزار روپے کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔حالات اگرچہ اسی سمت جا رہے ہیں مگر اللہ نہ کرے کہ سعود عثمانی کا یہ شعر کبھی درست ثابت ہو۔
کا غذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
کتابوں کے ساتھ عشق میں گندھی ان راتوں کی سحر آفرینی اب بھی یاد آ جائے تو خیالات کو اجال جاتی ہے، کتنے ہی لوگ گم شدہ چہروں کو کتابوں کے اوراق اور الفاظ میں کھوجتے تھے اور مَحبّتوں کے اسیر کتنے ہی لوگ کتاب اپنے منہ پر رکھ کر سو جایا کرتے تھے، احمد عقیل روبی کے بہ قول :-
کتاب کھول کے دیکھوں تو آنکھ روتی ہے
ورق ورق ترا چہرا دِکھائی دیتا ہے
آج کتابوں کے ساتھ اہلِ ثروت کے رویّے بھی اتنے روکھے اور پھیکے ہیں کہ وہ بھی کتاب خریدنے کی بجائے، بہ طورِ تحفہ ملنے کے منتظر رہتے ہیں۔مختلف اداروں، سکولوں اور کالجوں کے سربراہان بھی مفت میں کتاب ملنے کی آس لگائے ہوتے ہیں۔یہ ہمارے علمی اور ادبی ذوق کو کیا ہو چلا کہ ہم فقط پانچ سات سو روپے بھی کتاب خریدنے کے لیے خرچ نہیں کر سکتے؟ وہ کتاب کہ جس کو تحریر کرنے میں مصنف نے کتنی ہی راتیں جاگ کر گزاری ہوتی ہیں، جس کی طباعت اور اشاعت تک میں بہت سے لوگوں نے محنت کی ہوتی ہے، وہی کتاب جس کے مطالعے سے بہت سے چہروں سے ملاقات ہو جاتی ہے، ادب کی یہ بے توقیری ماضی میں تو کہیں دِکھائی نہیں دیتی، ہوش نعمانی رام پوری نے کتاب کی اَہمّیت کے متعلق کہا تھا:-
جسم تو خاک ہے اور خاک میں مل جائے گا
مَیں بہ ہر حال کتابوں میں ملوں گا تم کو