لکڑی کا مولوی
حالِ دل :
کچھ دن ہوتے ہیں کہ ایک فون کال نے حضرت قاری نوید
الحسن لکھوی صاحب رحمہ اللہ کی یاد تازہ کر دی احباب جانتے ہیں حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ طنز و مزاح کے پیرائے میں، مزاج میں شگفتگی سموتے ہوئے ایسی ایسی تلخ حقیقتوں کا اظہار کرتے تھے کہ قہقہوں کی برسات میں انسان بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا سٹاف روم میں، میں اور قاری صاحب رحمہ اللہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کال ائی جس میں کسی صاحب نے، خوش الحان امام صاحب کی فرمائش کی جو نمازیں بھی پڑھائے مسجد کی صفائی ستھرائی کا انتظام بھی سنبھالے اور خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرمائے. فرمائش کرنے والے نے تھری ان ون کی فرمائش کرنے کے بعد یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے لہٰذا بندہ ایسا ہونا چاہیے جو اللہ کی رضا کے لیے کام کرے. ہاں ہم ان کو کھانا دے دیا کریں گے. میں نے انہیں تو ٹال دیا لیکن حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے یہ سارا قصہ گوش گزار کر دیا قاری صاحب رحمہ اللہ طنزیہ انداز میں گویا ہوئے”انہاں نوں کوئی لکڑ دا مولوی لب دیو” اب رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں ایک ٹھیک ٹھاک سرمایہ دار صاحب کی کال آتی ہے… مسائل ایسے دریافت کیے جن سے صاف سمجھ آرہی تھی کہ زیب داستان کے لیے بات بڑھائی جا رہی ہے بہر کیف دو مسئلے پوچھنے کے بعد آمد برسر مطلب کے مصداق جناب نے فرمایا کہ آپ کو پتا ہے کہ مسجد تعمیر کی ہے تو کچھ ماہ کے لیے کسی خطیب صاحب کا بندوبست کریں…خوانندگان محترم مسجد کی جگہ تقریبا دو تین کروڑ کے لگ بھگ ہے اور جو شاندار تعمیر کی گئی ہے یقینی طور پر ڈیڑھ دو کروڑ اس پہ بھی صرف ہوا ہے…میں نے پوچھا خطیب کے لیے تو لوگ ہمیں کہتے ہیں آپ ان کی کیا خدمت کریں گے اور کیاوظیفہ دیں گے؟ تو فرمانے لگے جماعت بڑی کمزور ہے پیسے دینے کی سکت نہیں ہے ہمیں تو ایسا آدمی چاہیے جو اللہ تعالی کی رضا کے لیے کام کرے.
ہمارے پاس تو امد و رفت کا کرایہ بھی نہیں ہے ہاں کھانا ہم انہیں جمعہ کے جمعہ کھلا دیا کریں گے ہائے اقبال مرحوم یاد آئے کہ :
جہان تازہ میں ہے افکار تازہ سے نمود
سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
میری قوم آج بھی وہیں کھڑی ہے کہ اینٹوں پہ پیسے لگاؤ، پتھروں پہ پیسے لگاؤ ماربل بنواؤ، اے سی لگواؤ ہر طرح کی چیز مہیا کر دو لیکن اس بیچارے مولوی کو کچھ نہیں دینا اوراس کو لینا بھی نہیں چاہیے…اگر یہ پیسے مانگے گا تو اللہ کا دین فروخت کرے گا
اللہ المستعان یہ وہ صاحب شکوہ کر رہے ہیں کہ پکی اطلاعات کے مطابق ان کے صرف ایک بیٹے کی تنخواہ آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے اور جس پوش ایریے میں مسجد بنائی گئی ہے وہاں عام شخص گھر بنانا تو دور کی بات ہے پلاٹ لینے کا بھی نہیں سوچ سکتا… قوم آج بھی وہی کھڑی ہے…پھر آپ مجھے بتائیے ایسے مواقع پہ قاری نوید الحسن لکھوی رحمہ اللہ یاد آئیں کہ نہ آئیں اور ایسے لوگوں کو لکڑی کا بنا ہوا خطیب یا امام کیوں نہ دیا جائے؟
نثر نگار : حافظ عبد العزیز آزاد