سوال

میرا نام محمد فیصل بن محمد سرفراز ہے۔ میرے سسرال نے 6 اگست 2022 میں مجھ سے میری بیوی زینب فاطمہ بنت عابد حسین کو، مجھے مجبور کرکے طلاق دلوائی ہے۔ حالانکہ میں اور میری بیوی ہم دونوں طلاق نہیں چاہتے تھے۔ بلکہ میری بیوی کو طلاق کا علم بھی نہیں ہے۔ اسٹامپ پیپر پر تین طلاق لکھوا کر مجھ دستخط کروا لیے گئے تھے۔ کیا یہ طلاق ہوگئی ہے کہ نہیں؟ اور اگر ہوگئی ہے تو کیا ہم دوبارہ رجوع کرسکتے ہیں یا نہیں؟ ایک سازش کے تحت ہمارا رشتہ ختم کروایا گیا۔ اب ہم دونوں ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں، قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی کرے۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

 مسئلہ طلاق بڑی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم لوگ اس سلسلہ میں بہت لاپرواہ واقع ہوتے ہیں ، خاندانی چپقلش اور گھریلو ناچاکی کی بنیاد پر دو گھر اجاڑنے میں ہم ذرا دیر نہیں لگاتے ۔ ویسے بھی طلاق دینا، نہ دینا یہ خاوند کا حق ہے، کسی کو طلاق پر مجبور کرنا، یہ انتہائی مکروہ فعل ہے، اگر میاں بیوی آپس میں زندگی گزار رہے ہیں، تو کسی کے کہنے پر طلاق جیسا انتہائی اقدام کرنا درست نہیں ہے، طلاق پر مجبور کرنے والوں کو سمجھانا چاہیے کہ یہ رویہ درست نہیں، اور اگر واقعتا انتہائی مجبوری بن جائے، اور اکراہِ حقیقی کی صورت ہو، تو پھر اہل علم کے نزدیک ایسی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

لا طلاق في إغلاق. (سنن ابي داود:2193، وحسنه الألباني في الإرواء:2047)

’مجبوری میں کوئی طلاق نہیں‘۔

صورتِ مسئولہ میں محسوس ہوتا ہے کہ سائل کو ’اکراہِ حقیقی ‘کی صورت در پیش نہیں تھی، بلکہ کسی نہ کسی حد تک اس کی رضامندی شامل تھی، لہذا یہ طلاق واقع ہوگئی ہے۔
 دوسری بات یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ طلاق تک نوبت آ بھی جائے، تو درست طریقہ یہ ہے کہ ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے، اکٹھی تین طلاق دینے والا طریقہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی ناپسند تھا، آپﷺ نے اس انداز سے طلاق دینے کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل اور مذا ق قرار دیا ہے (سنن نسائی،الطلاق:3430)
بہرصورت کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت تین طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقعہ ہو ۔دلائل حسب ذیل ہیں:
1۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} [البقرة: 229]

’ طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے‘۔
اگر تینوں طلاقیں بیک وقت شمار کرلی جائیں، تو ’روک رکھنے‘ کا مفہوم ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح فرمایا:

{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ} [الطلاق: 1]

’ اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو ‘۔
اگر تینوں طلاقیں ایک ہی مرتبہ شمار کرلی جائیں، تو پھر خاوندوں کے لیے عدت شمار کرنے اور حساب رکھنے کا کوئی مطلب باقی نہیں رہتا!
2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم، الطلاق،1472) تاہم سیدنا عمررضی اللہ کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا ، جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق، 2/ 277، اور حاشیہ طحطاوی على الدر المختار)
3۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا: ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔ راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔( مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر )
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التأویل. (فتح الباری : 362/ 9)

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل کی حیثیت رکھتی ہے جس کی کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔
 سوال میں مذکور ہے کہ طلاق کا میری بیوی کو علم نہیں تھا، اگر یہ حقیقت بھی ہو، تو اس سے طلاق کے وقوع میں کوئی خلل نہیں آتا، کیونکہ طلاق دینا مرد کا حق ہے، جب اس کی طرف سے طلاق دے دی جائے، تو وہ واقع ہوجاتی ہے، چاہے بیوی کو معلوم ہو یا نہ ہو۔
 مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ آپ کی طرف سے ایک طلاق ہوگئی تھی، جس کے بعد آپ کے پاس عدت کے اندر اندر جوع کا حق موجود تھا، لیکن چونکہ آپ نے تین ماہ ( جو کہ غیر حاملہ مطلقہ کی عدت ہوتی ہے) کے اندر اندر رجوع نہیں کیا، اس لیے آپ کو رجوع کے لیے نئے سرے سے نکاح کرنا ہوگا۔ جس میں نکاح کی تمام شرائط و ضوابط ملحوظِ خاطر رکھنا ہوں گی۔ (صحیح بخاری:5130)
 ہم آپ کو یہ گزارش بھی کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ رب العالمین کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست رکھیں۔ نماز، روزہ، ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن کریم کی پابندی کیا کریں، وقتا فوقتا صدقہ وخیرات، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ ان نیکیوں کی برکت سے امید ہے اللہ تعالی آپ کے تمام مسائل اور پریشانیوں کو حل فرمادیں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب اہل خانہ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے، اور آپ کو سعادتمندی اور نیکی وتقوی سے بھرپور لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ