۲۰۱۹ میں علم و آگہی ادارہ کے تحت ایک سیمنار ستیانہ روڈ فیصل آباد میں منعقد ہوا جس میں صحافی مجیب الرحمن شامی نے بھی شرکت کی۔ میرا موضوع تھا مساجد کو کمیونٹی سنٹر کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس لیکچر میں تفصیل کے ساتھ بتایا کہ نبی اقدس کے زمانے میں اور خیرالقرون میں مسجد کا استعمال کیسے ہوتا تھا نبی علیہ السلام کا مہمان خانہ، عدالت جیل میرج ہال طلبا کا ہاسٹل وغیرہ مسجد ہی تھا۔ تمام کمیونٹی سرگرمیوں وغیرہ کے لیے مسجد ہی استعمال ہوتی تھی۔ خلفائے راشدین کا وزیر اعظم ہاؤس بھی مسجد ہی تھا۔ یہیں سے فوجیں روانہ ہوتی تھیں۔ یہیں سے قیصر و کسری کی تقدیروں کے فیصلے ہوتے تھے۔ آج ہم نے کروڑوں کی پراپرٹی کو صرف نمازوں اور بچوں کو ناظرہ پڑھانے کی جگہ بناہوا ہے۔ اور ہمارے مکرم بھائی سرور طارق مقیم لندن نے فی الواقع مسجد کو مکمل کمیونٹی فائدے کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ساتھ ہی ہسپتال بھی بنایا ہوا ہے اسی طرح اسلام آباد میں مسجد رحمة للعالمين بھی اس کا بہترین نمونہ ہے۔ عیسائیوں کی شادیاں چرچ میں ہوتی ہیں اور مسلمانوں کی میرج ہالوں میں
کتنے ظلم بلکہ شرم کی بات ہے۔
ہمارے عزیز محمد عاصم حفیظ کی یہ تحریر بھی اسی درد دل کی غماز ہے ۔
ملاحظہ فرمائیے

مساجد، اللہ کے گھر، انتظامیہ کے دو رویے۔
مساجد کو کتنا عوامی و فلاحی ہونا چاہیے ؟
فیصلہ انتظامیہ کو کرنا ہوتا ہے۔
ہسپتال، لاری اڈہ، عوامی مقامات کی مساجد میں کیا رویہ ہونا چاہیے ۔ ہسپتالوں کی مساجد میں کئی بار تجربہ ہوا۔ صرف مخصوص وقت کے لئے کھولی جاتی ہیں۔ اسی طرح بہت سے عوامی مقامات، سیرگاہیں وغیرہ ہونا تو یہ چاہیے کہ مسجد میں آنے والے ہر ایک کو آسانی لگے ۔ خوشی سے آئے ۔ آرام کرے ۔ تھکن ختم کرے ۔ کوئی کر سکے تو غرباء ومساکین کے لیے کھانے کا اہتمام کر دے ۔ ہسپتالوں میں لوگ پریشان آتے ہیں ۔ وہ باہر لان وغیرہ میں ۔ راہداریوں میں پڑے ہوتے ہیں ۔ مساجد میں کیوں نہیں ۔ چھوٹی چھوٹی ضرویات ۔ موبائل چارج یا گرمی سردی سے بچ کر کچھ دیر بیٹھنا ۔ حتی کہ تلاوت قرآن پاک میں لگے رہنا ۔
حتی کہ شائد کچھ لوگ پسند نہ کریں لیکن کیا اس بارے سوچنا نہیں چاہیے کہ ہمارے ملک کے بڑے شہروں میں ہزاروں مزدور۔ بے گھر لوگ سڑکوں پر سوتے ہیں ۔ وہ مساجد میں کیوں نہیں ؟
غریبوں کے بچے ہاسٹل کے اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے پڑھ تک نہیں سکتے ۔ انہیں رہائش دیں ۔ نمازی بنیں گے اور ان کے لیے دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی ساتھ ہو ۔ بلکہ دینی گھرانوں کو تو چاہیے ہاسٹل کی بجائے مساجد کو ترجیح دیں۔

مزید پڑھیں: کیا مساجد میں خواتین کے دروس “بدعت” ہیں؟ (1)

یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔ کچھ مسائل بھی آئیں گے ۔ لیکن ان پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ مساجد سے جوڑیں ۔ وہاں پر گزرا وقت تبدیلی لائے گا ۔ نمازوں کے بعد وعظ ونصیحت ہو ۔ مشکلات کا شکار، مسافر، کو بات بھی زیادہ سمجھ آ سکتی ہے۔ زندگیاں بدل سکتی ہیں۔
عوام کے فنڈز ۔ اللہ کے لئے دئیے گئے صدقات و خیرات سے بنی مساجد عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ دستیاب کر دیں۔ اس سے برکتیں پھوٹیں گیں۔ معاشرہ بدلے گا۔ تبدیلی آئے گی۔ یقین مانیں زیادہ لوگ مساجد آئیں گے تو نئی راہیں کھلیں گیں۔ نئے معاون ملیں گے۔ سلسلہ بڑھ جائے گا۔ وہ جو ہم دعاؤں میں کہتے ہیں نہ کہ غیب سے امداد ملے گی۔ رب کا گھر ہے۔ رب کے مہمان ہیں۔ رب العالمین اپنی مدد ضرور کرے گا۔ ان شاءاللہ
ضروری نہیں ہر مسجد انتظام کرے۔ جو کر سکے وہ ضرور کرے۔
مسجد رحمۃ العالمین والے کمال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ خیر کے یہ سلسلے جاری رہیں۔

حافظ درانی