فاضل گرامی قدر شیخ عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک ویڈیو نظر نواز ہوا جس میں آپ شیخ الالبانی کے ایک فتوے کا حوالہ دے کر مساجد میں خواتین کے ان دروس کو بدعت قرار دے رہے ہیں جن میں خواتین ہی خواتین سے خطاب کرتی ہیں، شیخ کا موقف ہے کہ ایسے دروس مساجد کے بجائے کسی خاتون کے گھر میں منعقد کیے جانے چاہیے، مزید فرمایا کہ دروس، اجتماعات اور تقریر وخطاب کا کام عالمات کا نہیں، یہ کام صرف مرد حضرات یعنی علماء کرام کو انجام دینا چاہیے۔
شیخ البانی کا مکمل موقف:
جہاں تک بات ہے شیخ الالبانی کے فتوے کی تو شیخ الالبانی رحمہ اللہ مساجد میں خواتین کے ہر طرح کے دروس کو بدعت نہیں مانتے، انہوں سے اس قسم کے دروس کو بدعت قرار دیا ہے جہاں خواتین مسجد میں درس کے لیے اس طرح جمع ہوجائیں کہ ان کے ازدحام کی وجہ سے مرد حضرات کا داخلہ ممکن نہ رہ جائے، یا خواتین منبروں پر بیٹھ کر خطاب کریں، شیخ کو اندیشہ تھا کہ یہ چیز آگے جاکر بدعت کی شکل اختیار کرسکتی ہے اور ممکن ہے کہ ایسی مساجد قائم کی جانے لگیں جو خواتین کے لیے خاص ہوں، جن میں عورتیں نماز پڑھائیں اور خطبہ دیں، اس اندیشے کا اظہار انہوں نے اپنے کئی دروس میں کیا ہے۔
باقی اگر اس قسم کے مسائل اور اندیشے نہ ہوں تو وہ مطلق خواتین کے مساجد میں دروس کے مخالف نہیں، انہوں نے خود مساجد میں خواتین کے دروس کی اجازت دی ہے۔
الجزائر سے ایک خاتون نے آپ سے سوال کرتے ہوئے اطلاع دی کہ وہ پہلے اپنی بہن کے گھر میں دروس کا انعقاد کرتی تھیں اور بعد میں گھر تنگ ہونے کی وجہ سے پریشانی ہونے لگی تو یہ دروس مسجد میں منتقل کردیے گئے جہاں کچھ فرقہ پرست جماعتوں کی وجہ سے مسائل ہورہے ہیں۔ ان مسائل پر جب شیخ الالبانی سے رہنمائی طلب کی گئی تو جواب میں شیخ رحمہ اللہ نے مساجد میں منعقد کیے جانے والے خواتین کے ان دروس پر نکیر نہیں فرمائی، بلکہ آپ نے اس بہن کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے ان کو اپنی قیمتی نصیحتوں سے بھی نوازا، شیخ رحمہ اللہ کی گفتگو کا متن یہ ہے:

“(ومن يتق الله يجعل له مخرجا ويرزقه من حيث لا يحتسب ) فقد جعل الله لكنّ هذا المسجد مخرجا إن شاء الله حينما ضاق بكم دار أختكم وعسى أن يكون ما وراء ذلك أوسع لكم مما ادّخر لكم في الغيب. “

ترجمہ : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ “جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے باہر نکلنے کا راستہ بنا دے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوگا۔ ”
جب آپ کے لیے آپ کی بہن کا گھر تنگ ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کو آپ کے لیے مشکلات سے نکلنے کا ایک راستہ بنا دیا ہے، امید ہے کہ آگے اللہ نے اس سے بھی زیادہ وسیع کوئی راہ آپ کے لیے بناکر رکھی ہوگی جو اس کے علم میں ہے۔
(“الهدى والنور” (664/ 12: 01: 00)
شیخ البانی کی ا س گفتگو سے بالکل واضح ہے کہ وہ مساجد میں خواتین کے ہر طرح کے دروس کے مخالف نہیں ہیں، ان کی مخالفت کا ایک خاص پس منظر ہے، ان کی مختلف تحریروں اور دروس میں اس موضوع پر ان کی گفتگو کو ایک جگہ جمع کرنے کے بعد یہی توجیہ بنتی ہے، عالم عرب کے ایک عالم دین “أبو سيرين ناصر عبد العزيز العبدلي” نے مساجد میں خواتین کے دروس سے متعلق شیخ الالبانی کی کتابوں اور دروس میں بکھری ان کی مختلف تحریروں کو ایک رسالہ میں جمع کیا ہے ، رسالے کا عنوان ہے

” التوضيح والبيان لمسألة تحليق المرأة في المسجد فهما واستنباطا من كلام محدث العصر الشيخ محمد ناصر الدين الألباني رحمه الله تعالى.”

شیخ البانی کے مشہور شاگرد *شیخ مشہور حسن آل سلمان حفظہ اللہ* نے یہ رسالہ اپنے مکتبہ سے شائع فرمایا ہے ، یہ رسالہ تو انٹرنیٹ پر مجھے نہیں مل سکا لیکن اس کے اقتباسات کئی لوگوں نے پیش کیے ہیں ، اس رسالہ کے مرتب بھی شیخ الالبانی کے کلام کو ایک جگہ جمع کرنے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شیخ الالبانی کی تنقید خاص پس منظر میں خاص قسم کے دروس کے لیے ہے جہاں خواتین کے اجتماع کی وجہ سے مردوں کے مسجد میں داخلہ پر پابندی لگ جائے، ورنہ وہ خود خواتین کو مساجد میں دروس کی اجازت دیتے ہیں ۔
فتاویٰ کی مشہور ویب سائٹ *”الاسلام سؤال وجواب”* کے مفتیان کرام نے بھی شیخ الالبانی کے فتوے کی یہی توجیہ کی ہے، قارئین “اسلام سوال و جواب” کی ویب سائٹ پر شیخ الالبانی کے اس فتوے کی توجیہ پڑھ سکتے ہیں
فتوے کا عنوان ہے :

حكم تدريس المرأة للبنات و النساء في المسجد۔

شیخ البانی مستند علم رکھنے والی معتبر خواتین کو درس دینے کی اجازت دیتے ہیں:
شیخ البانی کے جس فتوے کا حوالہ دے کر شیخ عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ نے خواتین کو مساجد میں دروس سے روکا ہے اسی فتوے میں شیخ نے معتبر اور مستند علم رکھنے والی خواتین کو دروس اور خواتین کے لیے خصوصی مجالس کے منعقد کرنے کی اجازت دی ہے، شیخ کے الفاظ ہیں:

فإن وُجِدَ في النساء اليوم من أوتيت شيئاً من العلم والفقه السليم المستقى من الكتاب والسنة، فلا بأس من أن تعقد لهنّ مجلساً خاصًّا في بيتها أو بيت إحداهنّ، ذلك خير لهنّ

ترجمہ : اگر آج ایسی خواتین موجود ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت پر مبنی علم اور فقہ سلیم سے نوازا ہے تو کوئی حرج نہیں اگر وہ اپنے گھر یا کسی دوسری خاتون کے گھر میں خاص مجلسوں کا انعقاد کرلیں، یہ ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔
لیکن اس کے برخلاف شیخ عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ تو سرے سے خواتین کو دروس کے انعقاد ہی سے روک رہے ہیں اور فرما رہے کہ دروس واجتماعات کا کام خواتین کا نہیں مرد علماء کرام کا ہے۔
یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ شیخ حفظہ اللہ کیوں شیخ البانی کے فتوے کے آدھے حصے سے اتفاق کر رہے ہیں اور آدھے حصے انحراف۔
اصولی بات:
مساجد میں خواتین کے دروس سے متعلق اصولی بات یہ ہے کہ دعوت کا مواد اور مناہج  توقیفی ہیں ، یعنی ان میں اجتہاد نہیں کیا جاسکتا ہے، جو مواد اور جو منہج اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا قیامت تک دعوت کا وہی مواد اور وہی منہج رہے گا۔
لیکن دعوت کن مقامات پر دی جائے، دینی دروس اور اجتماعات کا انعقاد کن جگہوں پر کیا جائے یہ دعوت کے ان وسائل میں سے ہیں جو توقیفی اور تعبدی نہیں ہیں، اجتہادی ہیں، یعنی ہر زمانے کے حالات ،عرف، مصالح اور مفاسد کی روشنی میں علماء طے کریں گے کہ دعوت کے لیے کن وسائل کا استعمال کیا جائےا ورکن مقامات پر دعوتی دروس اور اجتماعات کا انعقاد کیا جائے۔
لہذا یہ کہنا کہ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خواتین کے اجتماعات مساجد میں نہیں ہوتے تھے اس لیے مساجد میں دروس کا انعقاد بدعت ہے انتہائی نا معقول بات ہے۔
اس اصول کی روشنی میں تو ہمارے دور میں دعوت و تعلیم کا پورا نظام بدعت قرار پائے گا، ہمارے سارے مدارس بدعت قرار پائیں گے کیونکہ ہمارے دور میں دینی تعلیم کے لیے جیسے مساجد سے الگ مدارس قیام ہوتا ہے اس طرح کے مدراس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں پائے جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا متعین دینی تعلیم کا نصاب بھی وضع نہیں کیا گیا تھا، امتحانات نہیں ہوتے تھے، سندیں نہیں دی جاتی تھیں، اہل علم کے ایسے القاب نہیں ہوتے تھے، ہمارے دور میں جو کانفرنسیں، اجتماعات ، سیمنارز اور تربیت کے دورے ہورہے وہ سب کے سب بدعات قرار پائیں گے کیونکہ یہ سب کچھ نبی ﷺ کے بعد کی ایجاد ہے اور مصلحتوں کے تحت ایجاد کیے گئے ہیں۔
اب ان تمام چیزوں کے جواز کے لیے جو بھی دلیل شیخ حفظہ اللہ کے پاس موجود ہے اس سے خواتین کے مساجد کے دروس کا جواز بھی نکل ہی آئے گا۔
آپ کا اصول آپ ہی کے فتوے سے ٹکرا رہا ہے:
شیخ حفظہ اللہ فرما رہے ہیں:
“اگر فرض نماز کے لیے خواتین کا گھر افضل ہے تو اجتماع کے لیے وہ مسجد میں کیسے آسکتی ہیں، جو ضابطہ نماز کےلیے ہے وہی ضابطہ دروس اور اجتماعات کےلیے ہے، لہذا عورتوں کو چاہیے کہ وہ مسجدوں کو چھوڑ دیں”
یہاں شیخ حفظہ اللہ کے بیان کا پہلا جملہ دوسرے جملے سے ٹکرا رہا ہے۔
واضح ہے کہ نماز کے معاملہ میں ضابطہ ہے کہ عورت کے لیے گھر افضل تو ہے لیکن مسجد میں آنا اس کے لیے جائز ہے، حرام نہیں، لہذا اگر آپ کا بتایا ہوا اصول دروس پر بھی اپلائی کیا جائے تو آپ کو کہنا چاہیے تھا کہ ” دروس کےلیے عورت کا گھر افضل ہے لیکن مسجد میں دروس جائز ہیں۔”
لیکن دوسرے جملہ میں شیخ حفظہ اللہ اپنے ہی بتائے ہوئے اصول کی مخالفت کرتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ:
” عورتیں مسجدوں کو چھوڑ دیں۔” یہ تو آپ کے ضابطے کے خلاف بات ہوگئی، نماز کے لیے تو عورتوں کو مسجد چھوڑنے کے حکم نہیں دیا، تو دروس کے لیے کیوں کہا جارہا ہے؟ اگر آپ کے اصول کے مطابق دونوں کے لیے ضابطہ ایک ہی ہے۔
یعنی اگر نماز کے لیے مسجد آنے کی اجازت ہے تو دروس کے لیے اجازت ہی ہونی چاہیے، دروس کے لیے آنا بدعت کیسے ہوگیا؟ بلکہ نبی ﷺ نے تو مساجد سے عورتوں کو روکنے سے منع کیا ہے، اور اگر آپ کے بتائے ہوئے ضابطے کی توسیع کی جائے تب تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ جیسے عورتوں کو نماز کے لیے مساجد سے نہیں روکا جاسکتا ویسے دروس کے لیے بھی مساجد سے نہیں روکا جاسکتا، کیونکہ خود آپ ہی کا اصول ہے کہ “جو ضابطہ نماز کے لیے ہے وہی ضابطہ دروس اور اجتماعات کے لیے ہے” (جاری ہے)

تحریر: سرفراز فیضی