[کچھ دن پہلے ایک ٹی وی چینل پر معروف اسکالر ساحل عدیم اور اور معروف عالم طاہر اشرفی صاحب کے مابین مکالمہ ہوا، جس میں علمائے کرام اور ’مولوی‘ کی شخصیت کو لے کر آپس میں توتکار ہوئی، جس پر مختلف لوگوں کی طرف سے تحاریر لکھی گئی ہیں، ذیل کی تحریر بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔]

مولوی!
(ساحل عدیم اور طاہر اشرفی صاحب کے مکالمے پر کچھ دست بستہ گزارشات)

میں ایک مولوی ہوں۔
لغت کے مطابق مولوی وہ شخص ہوتا ہے جو دین کا خاصا علم رکھتا ہے، پڑھا لکھا آدمی ہوتا ہے، مسائل دین سے واقف ہوتا ہے، عالم دین، فقیہ یا فاضل ہوتا ہے۔ (ریختہ)
ان میں سے میں تھوڑا تھوڑا کچھ کچھ ہوں، وفاق المدارس کی سند بھی رکھتا ہوں۔ مگر کیوں کہ میرا سفر ابھی جاری ہے تو آپ مجھے طالب علم مولوی کہہ سکتے ہیں یا مولوی طالب علم۔
اس کے ساتھ ہی میں ایک یونیورسٹی میں پروفیسر بھی ہوں۔ میرے سامنے اکثر ساڑھے تین سو کی تعداد میں وہ بچے بیٹھے ہوتے ہیں جو میرے شہر کی کریم سمجھے جاتے ہیں۔ کوئی ورک شاپ کراتا ہوں تو ان کو پڑھانے والے بیٹھے ہوتے ہیں۔
دو مدارس میں بھی پڑھاتا ہوں، کلاس روم میرا ہوم گراونڈ ہے۔ لکھنے کا مجھے شوق ہے تو چند ہزار افراد اس سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔
جو میں لکھتا ہوں اس سے لوگوں کی زندگی میں فرق پڑتا ہے، بہتری آتی ہے، یہ میرے لیے کافی ہے۔ دل چاہتا ہے تو کسی موضوع پر ویڈیو بھی بنا لیتا ہوں، نہیں چاہتا تو ہفتوں نہیں بناتا۔
اگر میں کسی دن کالج کے درخت پر چڑھ کر چیخ چیخ کر پڑھانا شروع کر دوں تو دو دن میں پورا ملک، بلکہ شاید پوری دنیا مجھے جان لے گی،
یا میں (اپنی میڈیکل کی تعلیم کو استعمال کرتے ہوئے) ان دیوار پر لکھے ہوئے پوشیدہ موضوعات پر گفتگو شروع کر دوں جو شہر کے ہر علاقے میں پڑھے جا سکتے ہیں تو میرے پیجز پر بھی ٹریفک سو گنا بڑھ جائے گا۔ میرا یو ٹیوب چینل بھی مال بنانے لگے گا (جس کے حلال ہونے پر مجھے ابھی تک اطمینان نہیں ہے)۔
اور پھر میں بھی وائرل ہو جاؤں گا۔
پھر میں بھی ہیرو بن جاؤں گا۔
مگر مولوی کا کام ہیرو بننا نہیں ہے۔ وہ پیغمبروں کے قافلے کا فرد ہے، انبیاء کا وارث ہے۔ جو اس کرب سے گزرتے تھے کہ حق پر ہونے اور کمال کے کمیونیکیشن سکلز کے باوجود لوگ ان کی آواز سن کر کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے تھے۔ کبھی منہ پر چادر ڈال کر اگنور کر کے آگے بڑھ جاتے تھے۔
آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ حضرت نوح علیہ السلام کی اپنے رب سے فریاد سن لیں۔۔۔ وہ کسی فینٹیسی ورلڈ میں کھڑے جلسے نہیں کرتے تھے۔۔
پتھر کھاتے تھے، طعنے سنتے تھے، تشدد برداشت کرتے تھے۔
میں بھی ایک مولوی ہوں۔۔مجھے ہیرو نہیں بننا۔۔ کیوں کہ میں ہیرو ہوں ہی نہیں۔۔ میرا کام تھیٹر لگانا نہیں ہے، میرا کام کامیڈی کرنا نہیں ہے۔ جگت لگا کر اور ذو معنی باتیں کر کےمجمع اکھٹا کرنا نہیں ہے۔
احسن طریقے سے اپنے کردار اور گفتار سے دین کی دعوت دینا ہے۔ لوگ آئیں نہ آئیں یہ ان کا مسئلہ ہے، یہ میرا پرابلم نہیں ہے، مجھے بس اپنا کام ٹھیک سے کرنا ہے، میری کوشش اور اس کام کی کوالٹی کو جج کرنے والا میرا رب ہے۔ میں لوگوں پر داروغہ نہیں ہوں، انہیں زبردستی جنت میں لے جانا میرا کام نہیں ہے۔ میرا کام پیغام پہنچانا ہے۔ میرا اجر میرے رب کے ذمے ہے۔ لوگ اپنے برے اور بھلے کے خود ذمہ دار ہیں۔ اپنے اعمال کا بوجھ انہوں نے خود اٹھانا ہے۔۔
مجھے بس اپنا کام ٹھیک سے کرنا ہے۔ ہیرو نہیں بننا۔ کیوں کہ میں ہیرو نہیں ہوں۔ میں مولوی ہوں۔

محمد یحیی نوری