میرے پاس اشکِ ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں
درد والم کا جوار بھاٹا انسان کے دل میں ایک طوفان اٹھا کر اگر آنکھوں کے راستے بہ نکلے تو دکھیارے مَن کو قدرے قرار مل جاتا ہے، اس لیے کہ آنسو دل کے بوجھ کو ہلکا کر دیتے ہیں۔آنکھوں سے نکلنے والے آنسو، غموں میں گِھری زندگانی، بے برکتی اور اضطراب کو اتنا سکون ضرور دے جاتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگتا ہے۔اکثر لوگوں کے دل دردوکرب سے زیادہ گناہوں سے کناروں تک بھرے ہوتے ہیں مگر اس قدر معصیت کے باوجود آنکھوں سے کوئی ایک آنسو تک نہیں نکلتا۔یہ حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی کتنے ہی گناہوں سے کیوں نہ لتھڑی ہو، عاجزی اور ندامت کے حُسن وجمال سے آراستہ آنسو اُس کے تمام گناہوں کو دھو ڈالتے ہیں۔اللہ کے حضور آنسو بہانے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے، جب بھی انسان کے دل میں یہ انقلاب رونما ہو اُسی وقت اشک فشانی کر کے گناہوں کی معافی مانگی جاسکتی ہے، مگر ماہ صیّام میں اللہ کی رحمتوں کی برکھا دلوں پر اتنے تواتر کے ساتھ برستی ہے کہ انسان اگر مستقیم راہوں کا انتخاب کر لے تو پھر اللہ رب العزت کی رحمتیں گناہوں سے اٹے اس شخص کو بھی اپنے حصار میں لے لیتی ہیں۔ماہِ رمضان کے لمحات اتنے سعید افروز اور نوید افزا ہیں کہ جہنّم کے دروازے بند اور جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، مگر ذرا اپنے دل کے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیے کہ کیا وجہ ہے کہ اکثر لوگ جنّت کے دروازوں کو کُھلا دیکھ کر بھی ان میں داخل ہونے کی تمنّا اور سعی نہیں کرتے جب کہ جہنّم کے دروازوں کو بند دیکھ کر بھی اس میں داخل ہونے کے لیے مسلسل دروازے پیٹتے ہیں۔آخر لوگوں کو جہنّم میں داخل ہونے کی اتنی بے چینی اور جلدی کیوں ہے؟ شیطان وسوسوں اور واہموں کے ذریعے ماہ صیّام کے لمحات کو انتہائی کٹھن بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے کہ اتنے گرم اور تپتے ماحول میں روزے کیسے رکھے جائیں گے؟ تقویٰ اور خوفِ خدا کی کمی کے شکار دلوں میں رہ رہ کر خیالات امڈتے ہیں کہ تیرہ سے زائد گھنٹوں پر محیط روزے کے لمحات کیسے گزر پائیں گے؟ مگر اِن پراگندہ خیالات کو جھٹک کر اپنے ذہنوں میں وہ منظر لائیے کہ رمضان المبارک کے گرم دنوں میں صحابہ ءِ کرام ؓ نہ صرف روزہ رکھتے بلکہ میدانِ جہاد کو بھی گرماتے اور صرف ایک ایک کھجور پر روزہ افطار کر کے اللہ کے حضور ہدیہ ء تشکّر و سپاس بجا لاتے۔انواع و اقسام، لذیز اور مَن پسند سحری اور افطاری کے باوجود بھی اگر لوگ آج روزہ رکھنے کی طرف راغب نہیں ہوتے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک جنّت کے کُھلے دروازوں کی کوئی اَہمّیت نہیں۔
ہمارے کندھوں پر دھری گناہوں کی پوٹلی بڑھ بڑھ کر گٹھڑ بن چکی ہے مگر اس کا بوجھ ہماری طبیعت پر ذرا گراں اور ثقیل نہیں گزرتا۔حد تو یہ کہ لوگ گناہوں کی کسی ایک حد پر بھی اکتفا کے لیے تیار ہی نہیں، گناہوں کی نت نئی مکروہ شکلیں اور بھیانک روپ کردار و عمل کا حصّہ بنتے جا رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم کو دنیا میں توانا رکھنے اور آخرت میں جہنّم سے محفوظ رکھنے کے لیے ماہ صیّام کا اَن مول تحفہ امّتِ مسلمہ کو دیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مور پالڈ نے اسلام کا مطالعہ کیا، وہ روزے پر پہنچا تو ششدرہ رہ گیا کہ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اتنا عظیم تحفہ دیا ہے!
روزہ اللہ کی رحمتوں کی برکھا ہے، آج اسلام دشمن لوگ بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ روزہ ایک ایسی منفرد سوغات ہے جو صرف مسلمانوں کے حصّے میں آئی ہے۔آپ تسلیم کریں یا نہ کریں مگر جدید طب کے ماہرین اس حقیقت کو ماننے لگے ہیں کہ انسانی جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں جس پر روزے کے خوش گوار اور دُور رَس اثرات مرتّب نہ ہوتے ہوں۔ڈاکٹر لوتھر، فارماکالوجی کا ماہر تھا اس نے سارا دن خالی پیٹ روزہ دار شخص کے معدے کی رطوبت لی اور پھر اس کا ٹیسٹ کیا، اس نے اپنے اس مشاہدے سے دنیا کو آگاہ کیا کہ ایسے غذائی اجزا جن سے معدہ امراض پیدا کرتا ہے وہ بالکل ختم ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر جوئل لکھتا ہے کہ اس اصول پر تمام ڈاکٹر متفق ہیں کہ ترک خورونوش بیماریوں کے ازالے کے لیے خاص تدبیر ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ تمام حیوانی اجسام میں قدرت کا یہ قانون ہے کہ وہ چیزیں جن میں زندگی کے اثرات نہیں پائے جاتے اور جن میں فرسودگی موجود ہوتی ہے، بھوک پیاس سے یہ خارج ہو جاتے ہیں۔جسم کی کھال، بالوں اور ناخنوں میں نمایاں طور پر اس قانون پر عمل درآمد کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
قوتِ برداشت، ایثار. قربانی اور صبروتحمّل روزے کے ذریعے بڑے مستحکم انداز میں پیدا ہوتے ہیں۔صحابہ ء کرام ؓ کی قوتِ برداشت پڑھ کر دل دنگ رہ جاتے ہیں۔سیرتِ رسول ﷺ اور سیرتِ صحابہ ؓ فوز وفلاح کی ایسی راہیں ہیں کہ اگر ایمانی حرارت دلوں میں موجزن ہو تو ان پر عمل کرنا چنداں دشوار نہیں۔
قرآنِ ذی شان جس کا لفظ لفظ رحمتوں سے بھرا ہے، اسی رمضان کی سعید ساعتوں میں نازل ہوا۔نبی مکرم ﷺ خود اپنے صحابہ ؓ کو قرآن سناتے اور کبھی عبداللہ بن مسعود ؓ کو بلاتے اور اُنھیں قرآن سنانے کا کہتے۔تلاوت سنتے سنتے آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی، پھر آپﷺ فرماتے: ابن مسعودؓ! کہیں اور سے پڑھو، معصوم ہونے کے باوجود نبی ﷺ کے تقویٰ کی یہ حالت تھی کہ آنسو بہتے چلے جاتے تھے، مگر ہم نے سرتاپا گناہوں سے مسموم ہونے کے باوجود آج تک کسی ایک گناہ پر احساسِ ندامت کے کسی دریچے میں جھانکنے کی زحمت تک گوارا نہ کی۔عمریں کھپ گئیں اور جوانیاں بیت چلیں مگر ہمارے دلوں میں وہ ایمانی غنچے آج تک نہ چٹکے، ہمارے ایمان وایقان میں وہ کلیاں آج تک عنبر فشاں نہ ہو سکیں جو ہمیں ربّ تعالیٰ کی رحمتوں کی آبشاروں تلے لے آئیں۔ماہِ صیّام پھر ہماری زندگی میں آچکا ہے، اللہ کی رحمتیں موسلا دھار برس رہی ہیں۔اپنی آنکھوں کو اتنی پتھریلی مت بنائیے کہ بڑے بڑے سانحات، حادثات اور معصیات پر بھی اِن میں نمی تیرنے کا نام ہی نہ لے، اپنی زندگیوں سے اتنی لمبی امیدیں بھی مت باندھیے کہ جن سے دل موت کے لمحات کو یکسر فراموش کر ڈالیں۔اب بہت ہو چکا۔۔۔ رب تعالیٰ سے بہت دُوری اختیار کی جا چکی۔۔۔ اب تھک ہار کر جھک جائیے اپنے پروردگار کے سامنے۔۔۔ہمارے سامنے ہزاروں لوگ مر چکے ہیں۔۔۔ ہم سیکڑوں لوگوں کی نمازِ جنازہ ادا کر چکے ہیں، ہم درجنوں لوگوں کا آخری دیدار کر چکے۔۔ اور ہم اَن گنت لوگوں کو آہوں اور سسکیوں کی بازگشت میں مٹّی تلے دفن کر چکے۔۔۔ اُن کی موت کا وقت مقرر تھا تو ہماری موت کا وقت بھی مقرر ہے اور بیتنے والا ہر لمحہ ہمیں اس مقررہ وقت کے نزدیک تر لا رہا ہے۔سو، اس ماہِ صیّام کو ایک سعادت خیال کر کے عبادت کیجیے! اللہ کی۔۔۔ آنسو بہائیے! پروردگار کے حضور۔۔۔۔ ساحر بھوپالی کے اس شعر کی مثل گِڑگِڑائیے اور فریاد کیجیے اپنے پالنہار سے کہ:-
اے خدا مجھ سے نہ لے میرے گناہوں کا حساب
میرے پاس اشکِ ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں
جس نے ایسا نہ کیا تو وہ بڑے ہی بدقسمت ہیں اس لیے کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہلاکت ہے اس آدمی کے لیے جس نے رمضان کا مہینا پایا اور اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی حاصل نہ کی، اس دعا کے جواب میں حضرت جبریل علیہ السّلام نے آمین کہا۔(رواہ الحاکم)
(حیات عبداللہ… انگارے)