استاد محترم کا یہ انٹرویو “علمائے اہل حدیث کی کہانی اُن کی اپنی زبانی” سے ماخوذ ہے۔ تفصیلی حالات ان شاءاللہ بعد میں لکھوں گا۔
مولانا حافظ مشتاق احمد قصوری
(پیدائش ۱۹۵۱ء)
سوال: آپ اپنا مکمل نام بتائیں اور والد گرامی کا مختصر تعارف کروائیں؟
جواب: مشتاق احمد بن مولانا محمد رفیق جو عالم باعمل ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین کاشتکار بھی ہیں، اب تک والد صاحب مختلف مقامات پر امامت و خطابت کی ذمہ داری سرانجام دے چکے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی دینی جدو جہد کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین
سوال: آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
جواب: ۹ مارچ ۱۹۵۱ء جھگیاں چوہڑ والیاں بشمولہ چور کوٹ تحصیل و ضلع قصور۔
سوال: آپ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق کیونکر پیدا ہوا؟
جواب: مذہبی ماحول میں پرورش ہونے کے ناطے میرا رجحان اس طرف تھا۔ گورنمنٹ ہائی اسکول راجہ جنگ سے پرائمری کا امتحان پاس کرنے کے بعد جامع مسجد اہل حدیث محبوبیہ میں قائم مدرسے میں داخلہ والد صاحب کی سرپرستی میں لیا۔
سوال: کن مدارس میں زیر تعلیم رہنے کے بعد آخر کسی مدرسے سے فارغ التحصیل ہوئے؟
جواب: حفظ القرآن کی سعادت حاصل کرنے کے بعد میں نے تجوید و منزل قاری عبد الشکور البرق سے پڑھی۔ جامع مسجد مبارک اہل حدیث پھولنگر کے بعد مدرسہ دارالاسلام ڈھولن ہٹھاڑ میں داخلہ لے کر یہاں ہی سے فارغ التحصیل ہوا۔
سوال: اساتذہ کون کون سے ہیں جن سے دینی تعلیم حاصل کی ؟
جواب: قاری سعید احمد، قاری عبدالشکور البرق، مولانا محی الدین سلفی سرگودھا والے، مولانا محمد اسماعیل مشہدی اور مولانا عبید اللہ، شیخ الحدیث مولانا عبد الخالق کھڈیاں خاص قصور والوں سے بخاری شریف پڑھی۔
سوال: دینی طلبہ زیادہ مدرسے کیوں تبدیل کرتے ہیں؟
جواب: دور حاضر میں اکثر طلبہ مادی سہولیات کے فقدان کی خاطر یہ حرکت کرتے ہیں جو نا مناسب ہے۔
سوال: آپ کے رفقائے مدارس میں جو اس دین کی نشرواشاعت میں مصروف ہیں ان کے اسمائے گرامی کیا ہیں؟
جواب حافظ خبیب احمد ڈپٹی ڈائریکٹر لائبریرین اسلام آباد، حافظ زاہد احمد فاضل مدینہ یونیورسٹی حال مقیم لاہور، حافظ محمد عباس، مولانا حبیب الله چراغ دین والا قصور، مولانا محمدسعید شیخوپورہ اور حافظ محمد یسین پھولنگر قصور ۔
سوال: اس سے قبل خطابت و تدریس کن مقامات پر کر چکے ہیں؟
(جواب) مرکزی جامع مسجد اہل حدیث ڈھولن ہٹھاڑ میں ایک سال خطیب رہنے اور مدرسہ دارالاسلام ڈھولن میں ۱۹۷۴ء سے ۱۹۸۸ء تک مدرس رہنے کے بعد ۱۹۸۸ء سے تا حال مدرسے کے ناظم انتظامی امور کے طور پر خدمت سر انجام دے رہا ہوں۔
سوال: آپ کو قرآن مجید اور صحاح ستہ کے علاوہ کون کون سی کتب پسند ہیں؟
جواب تفسیر محمدی، زینت الاسلام اور الرحیق المختوم ۔
سوال: آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟
جواب: چھے بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ تمام بھائی حافظ قرآن اور عالم دین ہیں اور اپنی اپنی جگہ دینی امور کو سرانجام دے رہے ہیں۔
سوال: آپ اپنے دور کی کن شخصیات سے بے حد متاثر ہیں؟
جواب: حافظ عبد القادر روپڑی، مولانا حبیب الرحمن یزدانی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، شہید اسلام علامہ احسان الہی ظہیر، مولانامحی الدین لکھوی، مولانا میاں محمد باقر ، حافظ محمد یحی عزیز میر محمدی، مولانا محمد حسین شیخو پوری اور شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف رحمھم اللہ تعالی
سوال: کیا آپ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے روشناس کروا رہے ہیں؟
جواب: میرا بڑا بیٹا عبد الرحمن حافظ قرآن ہے، اس وقت جامعہ رحمانیہ لاہور میں چوتھی کلاس میں زیر تعلیم ہے، باقی تین بچے قرآن مجید حفظ کر رہے ہیں۔ بچیوں کو بھی دینی وعصری تعلیم دلوائی ہے۔
سوال: آپ کو کن موضوعات پر تقریر کرنا زیادہ پسند ہے؟
(جواب) فکر آخرت ، عقیدہ توحید، شرک و بدعات کی مذمت اور اصلاح معاشرہ وغیرہ۔
سوال: آپ کی تصنیف کردہ کوئی کتاب ہو؟
(جواب) رمضان المبارک کے فضائل و مسائل پر پمفلٹ و اشتہار شائع ہوا ہے۔
سوال: کوئی زندگی کا ایسا واقعہ جو ہمیشہ یاد رہتا ہو؟
جواب: امام ابن جوزی بغدادی کی کتاب الأذكياء ” (ص: 59) میں واقعہ پڑھا جو کہ اس طرح ہے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ شیطان نے آپ سے مل کر کہا کہ تیرا یہ عقیدہ ہے کہ تم کو وہی پیش آتا ہےجو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: بے شک، اس نے کہا: اچھا ذرا اس پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر دیکھ، اگر اللہ تعالی نے تیرے ساتھ سلامتی مقدر کر دی ہے تو پھر تو سلامت ہی رہے گا۔ آپ نے فرمایا: اے ملعون ! اللہ عزوجل ہی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے بندوں کا امتحان لے۔ بندے کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کا امتحان لے۔
سوال: آپ کو بیرون ملک جانے کا اتفاق کب ہوا؟
جواب: بالکل نہیں، البتہ حج بیت اللہ کا ارادہ ہے۔ (الحمدللہ عمرہ سعادت حاصل ہوئی)
سوال: موجودہ سیاست سے اہل حدیث حضرات کو الگ تھلگ ہونا چاہیے یا آواز حق بلند کرنے کے لیے اس سے تعلق رکھنا چاہیے؟ جواب: لادینی قوتوں کا راستہ روکنے کے لیے بھر پور حصہ لے کر اپنے مسلک کی حقانیت اور عمل سے ثابت کر کے لوگوں کو قرآن وسنت کا عامل بنایا جائے تا کہ موجودہ سیاست سے نجات حاصل کر سکیں۔
سوال: موجودہ لوگوں کی دین سے دوری کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
جواب: بعض علمائے کرام کی ذاتی کوتاہیوں کی بنا پر ہے اور دور حاضر کے جدید ذرائع ابلاغ نے عوام الناس کو علمائے کرام کی صحبت سے اس قدر دور کر دیا ہے۔ اگر یہ لوگ علماء و شیوخ حضرات کی مجالس سے استفادہ کرتے تو ان کی یہ حالت آج نہ ہوتی۔
سوال: تمام اہل حدیث جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے آپ کے ذہن میں کوئی تجویز یا خاکہ ہو؟
جواب: موجودہ ہر امیر اپنی قیادت سے مستعفی ہو جائے اور تمام جماعتوں کی مشتر کہ شوریٰ کا اجلاس طلب کیا جائے۔ یہ شوریٰ جسے منتخب کرے اسے سبھی قبول کرلیں۔
(سوال) دین کے موجودہ طالب علم مطالعہ سے بہت ہی کتراتے ہیں، یہ سجھتے ہیں کہ آٹھ سال کا درس نظامی پڑھ لیا بس کافی ہے، کیا یہ طرز عمل صحیح ہے؟
جواب: یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ اسے جتنا ممکن ہو جلدی ترک کر دینا چاہیے۔
سوال: دینی سرگرمیوں کے علاوہ کیا مصروفیات ہیں؟ جواب گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کھڈیاں خاص میں بطور اے ٹی ٹیچر ۱۹۸۵ء سے ذمہ داری کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں مدرسے کے انتظامات اور بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم وغیرہ دیتا ہوں۔
سوال: قارئین کرام کے نام جو آپ پیغام دینا چاہتے ہیں وہ کیا ہے؟
جواب: ہر مسلمان اپنا تعلق اسلام سے مضبوط کر کے اسلام کی حقانیت اور مسلک حقہ اہل حدیث کو ہر گھر پہنچانے کے لیے اپنے اوپر لازم کر لے، یاد رہے کہ اپنے گھروں میں فحش لٹریچر کے بجائے اسلامی لٹریچر کو منگوائیں اور اپنی اولاد کی اس کے مطابق تربیت کریں۔
(تاریخ انٹرویو: ۲ ستمبر ۲۰۰۲ء)
ناقل: محمد مرتضی ساجد
آف ڈہولن ہٹھاڑ ضلع قصور