کچھ دن پہلے راستے میں ایک صاحب نے روکا اور جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ہزار ہزار والے کئی نوٹ نکالے اور کمال بے نیازی سے ہزار کا پورا نوٹ مجھے تھماتے ہوئے کہا : مولوی صاب اے تاہڈی عيد اے.
لب و لہجے کو جتنا نرم کر سکتا تھا کیا اور بتایا کہ میں کسی سے کچھ نہیں لیتا اور ساتھ یہ بھی عرض کی کہ : مستحقین کو تلاش کرکے دیا کریں…یہ کہہ کر پلٹا تو دوبارہ نِدا دی اور فرمانے لگے : مسجد کا مینار شکستہ ہوا جاتا ہے…آپ کی اجازت ہو تو اس کی مکمل درستی کرادی جائے…یہ سن کر دل سیپارہ ہوگیا کہ ہم سے تو سنگ و خِشت ہی بھلے جن پر لاکھوں بے دریغ خرچ کئے جائیں گے…

گوشت‌ پوست کے انسان کے جسدِ خاکی کی ابھی تک میرے قوم کے دل میں اینٹوں روڑوں جتنی بھی حیثیت نہیں ہے…بے ساختہ شیخ الحدیث مولانا محمد یونس بٹ صاحب رحمہ اللہ یاد آ گئے…ان کے دفتر میں بیٹھے ایک روز کسی نے کہا یہ تحریک چلائی جائے کہ مساجد کی تعمیر و ترقی میں حد سے زیادہ اخراجات کرنے کی بجائے امام و خطیب اور خادم پر روپیہ خرچ کیا جائے…بٹ صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے : ایسا کہا تو لوگ تعمیر پر پیسہ لگانا بھی چھوڑ دیں گے. بہتر یہ ہے لوگوں کو کہا جائے کہ تعمیر پر بھی صرف کریں اور مساجد و مدارس میں خدمت کرنے والوں پر بھی.
آہ فآہ ثم آہ…پتا نہیں میری قوم کا قبلہ و کعبہ کب درست ہوگا اور وہ کب اس بات کو سمجھیں گے کہ :

جہانِ تازہ میں ہے افکارِ تازہ سے نمو
سنگ و خِشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

نثر نگار : حافظ عبد العزيز آزاد