سوال

گزارش ہے کہ گورنمنٹ ہائی سکول چک 485 گ ب سمندری میں ایک مسجد واقع ہے۔جس کی حالت  بوجہ گردشِ ایام خستہ ہو چکی ہے۔مزیدبرآں مسجد مذکورہ سکول کی عمارت کے عقب میں واقع ہے۔جس میں سکول اوقات کے بعد نماز نہیں پڑھائی جاتی۔سکول انتظامیہ اس بات کی خواہاں ہے، کہ مسجد مذکور کو شہید کرکے مسجد کو نئے سرے سے سکول احاطہ کے شروع میں گاؤں کی طرف بنایا جائے۔تاکہ مسجد میں سکول کے بچوں اور اساتذہ کرام کےعلاوہ اہل دیہات بھی نماز ادا کرسکیں ۔اور سکول اوقات کے بعد بھی مسجد  ہمہ وقت آباد رہے۔ اس سلسلہ میں آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے ،آیا کہ جس جگہ سے مسجد تبدیل کی جا رہی ہے ،وہ جگہ سکول کے استعمال میں لائی جا سکتی ہے؟ اور شہید کی گئی مسجد کا سامان و ملبہ دیگر نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے مسجد میں قابل استعمال ہے۔گزارش ہے کہ مفتیان کرام اس ضمن میں رہنمائی فرمائیں اور فتوی جاری کریں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اسلام میں چار مقامات ایسے ہیں جن پر مسجد کا اطلاق کیا گیا ہے۔

نمبر1: تمام روئے زمین کو مسجد قرار دیا گیا ہے۔جیسا کہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا ہے:

“وَجُعِلَتْ لِي الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، فَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْيُصَلِّ”.[بخاری:335]

’ تمام روئے زمین کو میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی بنا دیا گیا ہے۔ اب میری امت میں جس شخص کے پاس نماز کا وقت آ جائے ، تو اسے چاہیے کہ وہیں نماز پڑھ لے‘۔

گویا تمام روئے زمین کو حکمی طور پر مسجد قرار دیا گیا ہے، اس سے تمام زمین کے وہ احکام نہیں  ہوں گے، جو مساجد کے ساتھ خاص ہیں۔

نمبر2:ایک مسجد وہ ہوتی ہے، جو گھر کے کسی کونے کو یا زرعی زمین کے کسی خطے کو سہولت کے پیش نظر مسجد قرار دے لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے گھر کے ایک کونے کو مسجد قرار دیا تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی  کہ وہاں نماز پڑھیں، تاکہ  ہم اس جگہ کو نماز کے لیے خاص کرلیں۔[بخاری:425]

اس قسم کی مساجد کو گھر یا زمین کا مالک جب چاہے ختم کرسکتا ہے۔ اور  اسے اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔

نمبر3:زمیندار لوگ اپنی زمین پر مسجد بنا لیتے ہیں جب تک وہ ہوتے ہیں وہاں نماز پڑھتے ہیں۔ اسی طرح فیکٹریوں والے، یا مختلف تعمیراتی  کمپنیاں جہاں پراجیکٹ ہوتا ہے، وہاں عارضی مسجد بنالیتے ہیں، جب تک کام ہوتا ہے، تب تک مسجد ہوتی ہے، بعد میں ختم کر دیتے ہیں۔یا جب تک مزدور فیکٹری میں ہوتے ہیں وہ نماز پڑھتے ہیں جب مزدور چلے جاتے ہیں ،تو کوئی بھی وہاں نماز نہیں پڑھتا۔

ان تینوں قسم کی جگہوں پر شرعی طور پر ’مسجد‘ کا اطلاق نہ ہوگا،اور نہ ہی اس جگہ کے لیے وہ تمام  احکامات ہیں، جو مساجد پر لاگو ہوتے ہیں۔

نمبر4:وہ مساجدہیں جن میں اذان و جماعت اور جمعہ کا اہتمام ہو اور اس کی زمین باقاعدہ وقف ہواس کو شرعی مسجد کہتے ہیں۔  سوال میں جس مسجد کے متعلق پوچھا گیا ہے، وہ بھی اسی قسم سے تعلق رکھتی ہے۔

ان  مساجد کو بلاوجہ دوسری جگہ منتقل  کرنا درست نہیں۔ ہاں البتہ اگر پہلی مسجد بے آباد ہوجائے ،یا اس سے وہ مقاصد پورے نہ ہو رہے ہوں ،جو تعمیرِ مسجد کے پیش ِنظر ہوتے ہیں، تو ایسے حالات میں  مسجد کو دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔

اس صورت میں پہلی مسجد کے سامان کو دوسری مسجد میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اور پہلی زمین کو فروخت کرکے اس کی قیمت کسی دوسری مسجد میں خرچ کرنا بھی جائز ہے، یا ویسے ہی اس جگہ کو کسی اور استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفہ کی ایک پرانی مسجد کو دوسری جگہ منتقل کر دیا تھا۔ اور پہلی مسجد کی جگہ کھجور منڈی بنا دی تھی۔کیونکہ پہلے بیت المال محفوظ جگہ پر نہیں تھا ،اس کی حفاظت مقصود تھی، تو اسے دوسری مسجد کے قبلہ کی طرف بنایا تاکہ آنے جانے والے نمازی اس پر نظر رکھیں۔[مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:216/31]

مندرجہ بالا تصریحات کی روشنی میں جب کوئی مسجد بےآباد ہو جائے ،تو اس کے سامان کو دوسری مسجد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔نیز اس کی زمین فروخت کرکے اس کی قیمت بھی دوسری مسجد میں صرف کی جا سکتی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف  سندھو  حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ