مجھ میں ہمت نہیں ہے
برائی کو برائی تو اکثر لوگ کہتے ہیں مگر برائی کے آگے ڈٹ کر کھڑا کوئی ہی ہوتا ہے. مشرکین مکہ نے جب خاندان رسول-صلی الله عليه وسلم-کو شعب ابی طالب ميں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا ،اور اتنا سخت بائیکاٹ کیا تھا کہ روز مرہ کھانے پینے کی اشیا تک بھی نہ پہنچنے دیتے تھے، آپ کا کیا خیال ہے کہ جب ایسی انسانیت سوز مہم چلاکر سوشل بائیکاٹ کی راہ ہموار کی جارہی تھی ،اس وقت مکہ میں کوئی رجل رشید نہیں تھا جو اس ظالمانہ اقدام سے لوگوں کو باز رکھتا؟!
میری رائے یہ ہے کہ بعض لوگ تھے جو اس اقدام کو غلط سمجھتے تھے، مگر کھل کر سامنے آنے کی ہمت نہ کر پائے، اس لئے کہ اکثریت کی تنقید برداشت کرنا ان کے بس میں نہیں تھا، بالآخر چند نوجوان ہمت کرکے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس انسانیت سوز معاہدے کو توڑنے کا اعلان عین اس وقت کیا جب صنادید قریش کعبہ کے سائے میں اپنی پارلیمنٹ کا اجلاس جاری رکھے ہوئے تھے۔
کہنے کامقصد یہ ہے کہ لوگ برائی کو برا تو سمجھ رہے ہوتے ہیں، لیکن اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔
اچھائی کا جذبہ اور برائی سے نفرت انسان کی سرشت میں ہے،آپ نے دیکھا ہوگا جب بھی کوئی بھلا کام شروع کرتا ہے ،لوگ کہتے ہیں یہ کام کرنے کی خواہش میرے دل میں بھی تھی بس ہمت نہیں کرپایا،اس طرح کے خیالات ہر آدمی کے ذہن میں اُس کے ظرف کے مطابق آتے ہیں ،اگر کوئی کھلاڑی ہے تو کھیل کے شعبہ سے وابسطہ لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے ،تاجر تجارت پیشہ افراد کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے،فوجی آدمی فوجی فاونڈیشن بناکر ملک کی خاطر جانیں نچھاور کرنے والوں کے لئے کچھ اچھا کرنا چاہتا ہے،
اسی طرح کا ایک بہترین کام جب ہمارے عزیز دوست فضيلة الشيخ حافظ خضر حيات صاحب نے علماء مدارس وائمہ مساجد کی خدمت کے لئے (بہبود علماء و اساتذہ)کے نام سے شروع کی تو بہت سے دوستوں نے اس مشن کی تحسین کی. وہیں بعض احباب اس تحریک سے بد مزہ بھی ہوئے، ان میں کچھ مخلص بھی ہوں گے، لیکن چیخ وپکار کرنے والے عموما وہی لوگ ہیں جن کے مفادات پر زد پڑتی ہے۔
اس تحریک کا بنیادی مقصد مدارس،مساجد میں عمرِ عزیز کھپانے والے بزرگ علماء کاتحفظ ہے کہ جب یہ بزرگ پڑھانے کے قابل نا رہیں، تو ادارہ انہیں عضو معطل کی طرح کاٹ کر اپنے سے الگ ناکرے بلکہ انہیں قیمتی نگینہ سمجھ کر (چاہے دعاؤں کے لئے ہی سہی) سینے سے لگائے رکھے۔ سرکاری یانیم سرکاری ادارے ریٹائرمنٹ کے وقت ریٹائرڈ ہونے والوں کی پنشن کا انتظام کرتے ہیں تاکہ بزرگی کی عمر میں دو وقت کی روٹی کے لئے دھکے نہ کھانے پڑیں،لیکن مدارس دینیہ میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
سوشل میڈیا کا دور ہے اس لئے احباب کی اس تحریک سے متعلق ملی جلی آراء سامنے آتی رہتی ہیں،بعض دوست تو تنقید کرتے ہوئے موصوف کو کچھ نادیدہ طاقتوں کا آلہ کار تک کہ دیتے ہیں، لیکن ہمارے ممدوح تنقید برداشت کرنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں،کہ
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا ۔
اگر موصوف نے اس خرابی کی اصلاح کے لئے شمع جلائی ہے تو ہمیں اس شعبے میں بہتری لانے کے لئے اس تحریک کا ساتھ دینا چاہئے ،ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنےحصے کی شمع جلائے گا تو روشنی ہو گی،
الله تعالیٰ اس کام میں تعاون کرنے والے تمام ساتھیوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
تحریر :ذبيح الله شاكر