ملحد بنیادی طور پر پورے دین کا منکر ہوتا ہے وہ اسے بنیادی طور پر بذریعہ تعقل دیکھتا ہے جس سے اسے کبھی تسلی نہیں ہوتی.
ملحد خدا سے بھی پہلے نبوت اور ایک رسول کے دعویٰ وحی کا منکر ہوتا ہے جس پر وہ رسول اپنی مکمل زندگی اور ساتھ میں خدائی معجزات بھی ساتھ لاتا ہے تاکہ لوگ اس کو پرکھیں کہ یہ دعویٰ اس نے کسی دنیاوی مقصد کیلئے بھی نہیں کیا اور نہ اسے کوئی ذہنی مرض لاحق ہے اور ساتھ میں ایسی تعلیم بھی ہے جو کسی بھی دوسرے انسان کے پاس نہیں ہوسکتی بلکہ وہ کلام سننے سے ہی انسانی کاوش نہیں لگ سکتا.
یہ سب نشانیاں ہیں قرآن کی ہر آیت(نشانی) دعویٰ رسالت کے حق ہونے کی نشانی ہے سو انسان ان نشانیوں کو پرکھ کر خدا کے اوپر ایمان لائیں کیونکہ جب کوئی نبی پر ایمان لے آیا تو خدا پر تو خودبخود ایمان لے آئیگا.
اور یہ وہ چیز ہے جسکی طرف کبھی ملحد کا دھیان نہیں جاتا فلہذا وہ وجود خدا کے بارے تشکیک کی بنیاد پر سوالات کرتا ہے اور اس گھتی کو عقلانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ یہ طریقہ بہت مشکل اور غیر فطری ہے.
ایک گھتی سلجھائے گا تو دوسری سامنے آجائیگی نتیجتاً کبھی صحیح بات تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ ایمان لانا اگر بذریعہ تعقل دیکھنا اور چیزوں کا معروضی مشاہدہ کرنا ہی ہوتا تو دنیا میں کوئی گمراہ نہیں بچتا ایمان کا مطلب ہی کچھ واضح نشانیوں کو سامنے رکھ کر اپنی فطرت سلیم کی آواز سننا ہے.
ہمارے ہاں بھی الحاد کی بنیادی خصوصیت یہ سمجھی جاتی ہے کہ یہ بس خدا کے منکر ہیں۔
حالانکہ حقیقت کے اعتبار سے وہ آخرت اور رسالت کے بھی منکر ہوتے ہیں۔یعنی پورے دین کے اصولاً ہی منکر ہوتے ہیں. بعض لبرل ملحد تو کسی بھی روایتی چیز کے بھی منکر ہوتے ہیں خواہ تہذیب ہو یا صدیوں سے چلا آرہا انسانوں کا متفقہ ایک اخلاقی قضیہ ہو!
اس غلط فہمی کی وجہ سے ان ملحدوں سے گفتگو بھی اکثر خدا کے وجود پر کی جاتی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ جو خدا کو مان لے گا، وہ آپ کے مذہب کو بھی مان لے گا جبکہ ان میں بہت فرق ہے۔ اگر وہ شخص اسلام کا منکر ہے تو بنیادی طور پر رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کا منکر ہے۔
اس لیے ہمیشہ خدا کے وجود کے بجائے نبوت کو بنیادی عقیدہ سمجھنا چاہیے جس پر گفتگو ہونی چاہیے۔ نبوت کے مان لینے کے بعد ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جو اس کو مانتا ہے، وہ آخرت اور خدا کو بھی ضرور مان لے گا۔
انسانوں کیلئے سب سے ضروری چیز جس پر ایمان لانا ہے وہ پیغمبر ہے اور اسکے دعویٰ رسالت کو جانچنا اور اس پر یقین رکھنا ہے، قرآن ہو یا دین کی شریعت ہو وہ سبھی رسول سے ہوکر ملتی ہے۔
ہمارے لیے ہدایت کو پانے کیلئے معیار سب سے پہلے نبی علیہ السلام ہیں قرآن اور دیگر دینی امور اسکے بعد ہیں جو خود بخود مل جاتے ہیں۔
قرآن کا بھی دعوت کا طریقہ ایسا ہی ہے کہ اس سے ایک ساتھ دین کے تمام تر عقائد کو تسلیم کروالیا جائے اور اس کی پیش کردہ نشانیوں اور دلائل کی حقیقت بھی اصلاََ نبوت و رسالت کی طرف بُلانا ہی ہے۔
پھر خدا کے اثبات پر سارے مذاہب خواہ وہ تہذیبی ہوں جیسے ہندوازم وغیرہ یا فلسفیانہ ہوں جیسے شنٹو ازم اور کنفیوشش ازم وغیرہ یہ سبھی اپنے اپنے لحاظ سے خدا کا تعارف کرواتے ہیں جو کہ بعض اوقات کمزور استدلال بھی ہوتا ہے جس سے یہ کمزور استدلال تمام مذاہب کے عقیدہ وجوب خدا کے خلاف ایک خلط مبحث کا مظیر پیش کرتا ہے.
قرآن نے بھی دین کے منکروں اور خدا کے منکروں کا ذکر کیا ہے لیکن اس پر وجوب خدا کے دلائل نہیں دئیے بلکہ رسالت و نبوت کے حقیقی ہونے کے ہی دلائل دئیے اور قرآن کے معجزہ ہونے کا دعویٰ کیا ساتھ میں چیلنج بھی کیا جو ابھی تک قائم ہے.
قرآن میں جو طریقہ نبوت کے ثبوت اور دینی کی طرف بلانے کا ہے وہی دراصل دین کی ہر اصول اور ہر جزء کی طرف بلاتا ہے اور اس پر قائل کرتا ہے.
خدا کے وجوب پر فلسفیانہ بحث کبھی بھی وہ نتائج نہیں لا سکتی جو نبوت کے حقیقی ہونے پر دلائل لا سکتے ہیں اور یہی تمام پیغمبروں کا طریقہ دعوت رہا ہے.
نبی علیہ السلام کی اپنی مکمل سیرت اور قرآن کا ہر ہر حرف غور کرنے والوں کو جھنجھوڑنے کی مکمل طاقت رکھتا ہے جو سلیم الفطرت لوگوں کو راہ ہدایت دکھانے کا مکمل ضابطہ ہے سو فطرت کی آواز سننے والے ہمیشہ سے ہی نبی علیہ السلام کے لائے ہوئے دین کو ماننے پر مجبور ہوئے ہیں اور اس میں ہر گزرتے ہوئے دن کیساتھ ترقی ہی ہورہی ہے.
یہ جتنے بھی منکر ہیں خواہ دینی اعتبار سے کچھ چیزوں کے منکر ہوں حدیث کے منکر ہوں یا ایمانیات کے جزوی طور پر منکر ہوں ان سب کے خلاف دلیل اور حجت نبی علیہ السلام ہیں اور اسی پر ہم ان سے گفتگو کر سکتے ہیں.
عمیر رمضان