سوال (3001)
ایک ساتھی کا پوچھا گیا سوال، بعض الفاظ کی درستی کے بعد شئیر کر رہاہوں ازراہ کرم اس کے بارے میں راہنمائی فرمادیں، جاوید مختلف کمپنیوں اور اداروں کے لیے لوہے کی چادر سے بنے ہوئے بکس وغیرہ تیار کرتا ہے اور ان کے ساتھ ریٹ فکس (طے) کر لیتا ہے، اور بکسز کی تیاری میں جو مزدور اس نے لگائے ہیں، انہیں 1500 روپے دیہاڑی دیتا ہے، اب اس نے ایک ادارے کے ساتھ ٹھیکہ کیا اور اپنے مزدوروں کو بھی کام کے لیے بلایا ہے اور ان مزدوروں میں سے ایک لطیف نامی مزدور سے 50 ہزار روپے لے کر جاوید نے اپنے کام میں اس معاہدے کے تحت لگائے ہیں کہ میری لگائی گئی کل رقم کے منافع کا حساب کر کے 50 ہزار روپے پر جتنا منافع بنتا ہوگا وہ میں تجھے دوں گا، اور اس منافع کا حساب لگا کر جتنی رقم بنتی ہے اتنی رقم باقاعدہ ذکر کر کے لطیف کو بطور نفع دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اور جاوید کا کہنا ہے کہ 50 ہزار روپے پر اتنا ہی منافع بنے گا۔ یعنی: مثال کے طور پر اگر اس نے کل رقم 2 لاکھ روپے لگائی ہے تو اس پر اسے نفع 1 لاکھ روپے حاصل ہوگا، جس میں سے 50 ہزار پر 25 ہزار نفع بنتا ہے، اور یہ رقم اس نے باقاعدہ ذکر کر کے لطیف کو دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ اور لطیف کے دیے ہوئے 50 ہزار لطیف کو دو مہینوں میں واپس کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے، کیا یہ طریقہ شرعی اعتبار سے جائز ہے۔؟ نقصان کے متعلق تحریر شدہ معاہدے میں کوئی ذکر نہیں ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ ہمیں کبھی نقصان نہیں ہوا، کیونکہ جن کو ہم بکسز بنا کر دیتے ہیں، انھوں نے ہماری طے شدہ رقم ہمیں دینی ہی ہوتی ہے، شیوخ کرام راہ نمائی فرمادیں۔
جواب
سوال میں بجا طوالت ہے، جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ پیسے نفعے کے نام پر فکس کردیے گئے ہیں، پیسے نفعے کا نام پر فکس کر دینا صحیح نہیں ہے، اصل قیمت پر نہیں بلکہ نفعے پر پرسنٹیج طے کیا جائے کہ میں نفعے میں اتنا پرسنٹیج دوں گا، وہ کبھی اوپر نیچے ہوتا رہے گا، تو صحیح ہو جائے گا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ