سوال (1248)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ : كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ جَالِسًا ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ ، فَقَالَ : مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ قَالَ : مِنْ زَمْزَمَ ، قَالَ : فَشَرِبْتَ مِنْهَا ، كَمَا يَنْبَغِي؟ قَالَ : وَكَيْفَ؟ قَالَ : إِذَا شَرِبْتَ مِنْهَا ، فَاسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ ، وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ ، وَتَنَفَّسْ ثَلَاثًا ، وَتَضَلَّعْ مِنْهَا ، فَإِذَا فَرَغْتَ ، فَاحْمَدِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : «إِنَّ آيَةَ مَا بَيْنَنَا ، وَبَيْنَ الْمُنَافِقِينَ ، إِنَّهُمْ لَا يَتَضَلَّعُونَ ، مِنْ زَمْزَمَ» [سنن ابن ماجہ : 3061]

حضرت محمد بن عبدالرحمن بن ابی بکر رحمہ اللہ سے روایت ہے ، انھوں نے فرمایا : میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا ۔ انھوں نے پوچھا : کہاں سے آئے ہو ؟ اس نے کہا : زمزم سے ۔ فرمایا : کیا تم نے اس میں سے اس طرح پیا ہے جس طرح پینا چاہے ؟ اس نے کہا : وہ کس طرح ہے ؟ فرمایا : جب تو اس ( چاہ زمزم ) سے پانی پیے تو قبلے کی طرف منہ کر ، اللہ کا نام لے ، تین سانس لے اور سیر ہو کر پی ۔ جب تو پی چکے تو اللہ عزوجل کا شکر ادا کر کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :’’ ہمارے اور منافقوں کے درمیان ( پہچان کے لیے ) یہ علامت ہے کہ وہ زمزم سیر ہو کر نہیں پیتے ۔‘‘
اس روایت کی سند کیسی ہے ؟ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ لیکن کبار محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے ؟

جواب

شیخ البانی رحمہ اللہ نے کس وجہ سے ضعیف کہا ہے وہ معلوم کر لیں ۔ پتا چل جائے گا ۔ إن شاء اللہ ۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ

کن کبار محدثین نے صحیح کہا آپ اس کی وضاحت فرما دیجئے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل میں اس حدیث پر اچھی گفتگو کی ہے اور عثمان بن اسود کے استاذ کے تعین میں جو اختلاف وارد ہے ، اسے ان کتب سے ذکر کیا (جس کے متعلق ہمارے ایک بھائی نے کہا تھا کہ وہ تو اختلاف والی کتاب ہے جس میں بہت سے مسلمات کے بارے اختلاف مل جاتا ہے!!! اور کسی نے اس پر نقد نہیں کیا….اور نہ اسے تحقیق حدیث میں غیر سنجیدہ رویہ کہا اور نہ طنز۔۔ اللہ المستعان)
اور محمد بن عبدالرحمن بن ابی بکر عن ابن عباس والی روایت کو راجح کہا ہے ، علی کل حال یہ روایت ضعیف ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے سنن میں ابن ابی ملیکہ عن ابن عباس والے طریق سے ذکر کیا ہے۔
(ان کا ذکر کرنا اس کی دلیل ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک معلول ہے ، ان کے اس کتاب کی تالیف کے مقصد اور منہج کے موافق)
علامہ البانی رحمہ اللہ نے دوسرے طریق پر بھی بات کی ہے۔
ابن العثیمین رحمہ اللہ نے فرمایا : “فیہ نظر”

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ