بعض مسائل کو سمجھنے کیلئے علماء آپس میں بیٹھ کر ڈسکس کرلیتے ہیں تاکہ کئی ساری چیزوں اور اختلافات کا روبرو اظھار کیا جاسکے۔ پھر انکا کوئی حل بھی نکالا جائے تاکہ جو عوام ان علماء یا انکے نظریات کو مانتی ہے اور ان نظریات و شخصیات کا احترام بھی کرتی ہے اور انہیں صاحب رائے بھی سمجھتی ہیں۔ انکے سامنے بھی اختلافات کا کھل کر اظہار کیا جاسکے۔ اس چیز کو مناظرہ یا مجادلہ کہہ لیا جانا قرآن میں بھی اسکا کافی دفعہ ذکر موجود ہے اور نجران کے عیسائیوں کا بھی نبی علیہ السلام سے مناظرہ ہوا جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی ابتدائی سورتوں میں تفصیل کیساتھ ذکر کیا ہے، تو مناظرہ بعینہ کوئی غلط چیز نہیں لیکن جو مناظرہ کی صورت ہمارے بر صغیر میں آج کل رائج ہے یہ تو واقعتاً بہت زیادہ نقصان دہ ہے اور علم و علماء کی توھین کا سبب ہے یا یوں کہ لیا جائے کہ وحدت امت اور اسلام کی روح کے بھی منافی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
اگر کوئی کہتا ہے کہ مناظروں میں خیر ہے تو حقیقت یہ ہے کہ مناظروں کا شر ان کے خیر پر غالب ہے۔ ورنہ تو سینما کی بھی بعض فلموں سے لوگوں کو فائدہ ہوجاتا ہے۔ مناظرے سینماؤں (cinemas) اور کھیلوں کا آسان متبادل ہیں۔ لوگ ان کو دیکھتے اور سُنتے ہی ڈوپالین (dopamine) کے لیے ہیں اور بعض لوگ ان کے بھی نشئی بن جاتے ہیں اور ہر پرانے مناظرے کو کنگھالنے میں لگے رہتے ہیں کیونکہ یہ ان کے لیے ویسے ہی ہے جیسے فلمیں دنیا دار طبقوں کے لیے ہیں۔ اور پھر زیادہ تر مناظرے بعد میں سوشل میڈیا پر بطور میم MEME مٹیریل ہی استعمال ہوتے ہیں۔جیسا کہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ جانتے بھی ہیں بڑے بڑے سنجیدہ علماء و مفکرین بھی جب مناظرہ میں آتے ہیں تو اپنا آپا کھو بیٹھتے ہیں اور یوں نظریات کو غلط ثابت کرنے کی بجائے شخصیات پر کیچڑ اچھالنا شروع کردیتے ہیں ایک دوسرے پر الفاظ کسنا شروع کردیتے ہیں اور عجیب عجیب حرکتیں شروع کردیتے ہیں، اور یہ مناظرہ کی صورت ہمیں صرف سٹیجوں پر ہی نہیں نظر آتی بلکہ بعض دفعہ مساجد کے منبر بھی اسی غلاظت کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جمعہ کے خطبات میں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے کی بجائے ردود بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔

پھر چونکہ ہمارے ہاں خطبات میں مواد پر بھی کوئی پابندی نہیں جس کا جو جی چاہتا ہے وہ وہی بیان کرتا ہے کسی کی کوئی پرواہ نہیں اسی لئیے آج بھی 22 کے قریب عرب ممالک میں ریاست کی اجازت کے بغیر عوام میں کچھ بولنے کی اجازت نہیں اور خطبہ جمعہ میں بھی خطبات ریاست کی طرف سے سکرپٹڈ ہوتے ہیں نہ کہ اپنی مرضی کے، اسکے پیچھے بھی وجہ یہی ہے جو آج ہم علماء اور خطباء کی زبانوں سے ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق سنتے ہیں، شاید اسی لئیے نبی علیہ السلام کا یہ فرمان ہے [لا يقُصُّ على النَّاسِ إلَّا أميرٌ أو مأمورٌ أو مُرَاءٍ، صحيح ابن ماجه صفحة 3037 صححه الالبانى و شعيب الارناؤط فی الأسرار المرفوعة | الصفحة أو الرقم : 90]
ترجمہ: لوگوں میں تقریر صرف تین طرح کے لوگ ہی کرسکتے ہیں حکمران ،یا جسکو حکمران نے مقرر کیا ہے یا پھر کوئی ریاکار شخص” اور صحیح ابو داؤد کی روایت میں ” مختال ” کا لفظ آیا ہے جسکا معنی ہے متکبر شخص، جو اپنی انا کی وجہ سے لوگوں میں تفرقہ بازی اور ریاست کے خلاف لوگوں کو اکساتا ہے،
پوری امت میں اس وقت اخلاقیات کا فقدان ہے ہمارا اسلامی کلچر ختم ہورہا ہے۔ مغربی تھذیب لوگوں کے ذہنوں میں پیوست ہورہی ہے اور مغربی ریاستیں اس میں سرگرم ہیں وہ اس پر اپنا پیسہ بھی خرچ کر رہی ہیں جبکہ علماء ابھی بھی ردود میں پھسے ہوئے ہیں، ہر چیز میں اختلاف رائے کو تفرقہ بازی میں تبدیل کرلیا جاتا ہے اس وقت پاکستان میں سیاسی انارکی سے زیادہ مذہبی انارکی اور شدت پسند زیادہ خطرناک ہے۔ مذہبی لوگ ریاست کی حکمرانی کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہی انکا سیاسی بیانیہ ہوتا ہے ، لیکن اگر مذھبیوں نے ریاست کو سمبھالنا ہے تو قوانین کس فقہ یا کسی مکتبہ فکر کے ہونگے یہاں تو ذرا سا اختلاف ہونے ہر قتل تک نوبت آ پہنچتی ہے!

تو میرے خیال میں جہاں امت جغرافیائی سرحدوں اور نظریاتی اختلاف و تفرقہ بازی میں مبتلا ہے وہاں یہ مناظرہ جو کہ دراصل مکابرہ بن چکا ہے، اسکی کوئی ضرورت نہیں اسکے نقصانات ہی ہیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مناظرہ سے لوگ اہل حدیث ہوگئے یا فلاں حق بات قبول کرلی تو حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کی نفسیات علماء کی ہونگی ویسی ہی نفسیات وہاں کے لوگوں کی ہونگی، مناظرہ میں دلائل کو پرکھا جاتا ہے زیادہ زور دوسرے فریق کو چپ کرانے اور اپنے آپ کو شاطر اور ذہین ثابت کرنے پر دیا جاتا ہے، جسکا سادہ مطلب یہ بنتا ہے کہ فلاں صاحب نے فلاں کو مناظرہ ہرادیا ، اسکو چت کرکے جیت اپنے نام کرلی، اور پھر اسی مکتبہ فکر کا کوئی مولوی جب کسی دوسرے سے مناظرہ ہر جاتا ہے تو اسکا مطلب وہاں حق و باطل کا فیصلہ ہوگیا، یعنی حق و باطل جسکا فیصلہ ہی نظریات اور دلائل پر کیا جاتا ہے وہ محض چند شخصیات کے لاجواب اور مغلوب ہونے پر منحصر ہوگیا، تو یہ مناظرہ تو نہ ہوا بلکہ کھاڑا ہوا جس میں دو مولویوں کو آپس میں لڑایا جاتا ہے اور آس پاس تماشائیوں کی ریل پیل اور شور و غوغا ہوتا ہے،
مولانا حنیف ندوی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں ،
” اور واقعہ ہے کہ ہم ہمیشہ اس (مناظروں) میں سنیما کا نعم البدل سمجھ کر ہی شریک ہوتے رہے اور محفوظ ہوتے رہے۔
خود مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی ، جنہوں نے فن مناظرہ کی نوک پلک درست کی تھی اور اس میں جان ڈالی تھی ، مرزائیوں سے جب بحث ہوتی تو اسے اِحقاق حق یا علم و فضل کا امتحان نہیں قرار دیتے تھے، بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ ناشتہ کی چیز ہے!
چنانچہ ہم نے کئی مناظروں میں دیکھا کہ مرزائی مولوی فضیلت کا دفتر کھولے آیت پر آیت پڑھ رہا ہے ، اور تحریف پر تحریف کر رہا ہے ، اور وہ سب کچھ کہہ رہا ہے جس کا ان کی لال کتاب میں ذکر ہے کہ یہ رہی دلیل نمبر 1، دلیل نمبر 2 ، دلیل نمبر 3 ، وغیرہ، یہاں تک کہ دلائل کا نمبر پارے کی طرح پچاس تک پہنچ جاتا۔
مولانا اس پر مسکراتے ہوئے اٹھتے، ایک بر محل شعر پڑھتے، ایک چٹکی لیتے اور حاضرین ہنسی سے لوٹ لوٹ جاتے۔ ”
[ اہل حدیث کا دینی تصور ، ص 158 ]
ہاں اگر کسی بات پر دو علماء نے بات چیت کرنی ہے تو اپنے اپنے دلائل سامنے رکھیں اور بڑی شائستگی کے ساتھ وہاں تبادلہ خیال کیا جائے اور پھر نظریات و دلائل میں یہ ہار جیت کا فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚإِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴿ النحل:١٢٥﴾
اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا اور ان سے اس طریقے کے ساتھ بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ بیشک تیرا رب ہی زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہی ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔
میرے نزدیک مناظرہ ان اصولوں کے تحت کیا جاسکتا ہے وگرنہ یہ شرعی اعتبار سے بھی ناجائز ہوگا چہ جائیکہ اخلاقیات کے اعتبار سے اسکا فیصلہ ہو،
۱- مناظرہ و مجادلہ میں پیش نظر دوسرے کو ہرانا یا رسوا کرنا نہ ہو بلکہ دعوت و اصلاح ہو۔ بلکہ مناظرہ و مجادلہ حکمت اور اچھی وعظ و نصیحت پر مبنی ہو۔
٢- مناظرہ میں اپنی شخصیت اور دوسرے کی شخصیت کو اگنور کرکے محض دلائل کا تقابل کیا جائے، اور فریقین میں ایک دوسرے کو سننے کا حوصلہ بھی ہو،
٣- مناظرہ اس نیت سے کیا جائے کہ شاید اس سے کچھ چیزوں کی اصلاح کری جائے اور کچھ چیزوں کی اصلاح کروائی جائے، اور ایک دوسرے سے استفادہ و افادہ مطلوب ہو نہ کہ ایک دوسرے پر غالب آنے کا جذبہ ہو،
٤۔ مناظرہ و مجادلہ احسن طریق پر ہو یعنی اس میں اخلاق حسنہ، عمدہ گفتگو، بہترین اسالیب کلام، سنجیدگی و وقار اور باہمی ادب و احترام کا لحاظ کیا گیا ہو۔
٥-مناظرے کسی کو قائل کرنے کے لیے نہیں ہوتے، کسی کو قائل کرنے کے لیے ہو ہی نہیں سکتے۔ کوئی قائل ہوجائے تو وہ ایک استثنائی حالت ہے۔ مناظرے جیتنے کے لیے ہوتے ہیں، دوسرے کو شکست دینے کے لیے ہوتے ہیں۔اس لیے کہ ان میں تو باقاعدہ تماشائی آتے ہیں۔لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔انسانی اَنا اپنی شکست قبول نہیں کرپاتی ہے، وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ میں اپنی شکست برداشت کرلوں گا۔
اگر تو اس مناظرہ میں فریق مخالف جہالت و جذباتی گفتگو کا مظاہرہ کرنا شروع کر دے تو سلام کہہ کر اس سے رخصت لے لینی چاہیے کیونکہ آپکا مقصد اپنے خیالات دوسرے شخص اور عوام تک پہنچانا تھا اور اپنا نکتہ نظر سامنے رکھنا تھا جو کہ رکھ دیا باقی کوئی اس سے فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں اس کی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی، ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴿الفرقان: ٦٣﴾
(مومنین کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ) جب انکا جاھل لوگوں کیساتھ واسطہ پڑ جائے تو یہ سلام کرکے آگے گزر جاتے ہیں،

عمیر رمضان