نواقضِ وضوء

شرعیتِ اسلامیہ نے کچھ ایسے امور بتائے ہیں،جنکے صدور سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔اب نماز وغیرہ پڑھنے کے لئے آپکو دوبارہ وضوء کرنا ہوگا۔

نواقضِ وضوء درج ذیل ہیں

1۔ سبیلین (دونوں شرمگاہ) سے کوئی بھی چیز (پیشاب،پاخانہ،مذی،ودی،منی،حیض،نفاس،استحاضہ کا خون) خارج ہو جانے سے وضوء ٹوٹ جائے گا

ارشادِ باری تعالیٰ
{اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ}
’’یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو۔‘‘
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا وُضُوءَ إِلَّا مِنْ صَوْتٍ أَوْ رِيحٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’ وضو واجب نہیں جب تک آواز نہ ہو یا بونہ آئے’ ۱؎ ۔ (ترمذی 74)
مذی
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً وَكُنْتُ أَسْتَحْيِي أَنْ أَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَانِ ابْنَتِهِ فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ فَسَأَلَهُ فَقَالَ: «يَغْسِلُ ذَكَرَهُ وَيَتَوَضَّأُ»
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :مجھے مذی بہت زیادہ آتی تھی اور میں آپﷺ کی بیٹی کے (ساتھ) رشتے کی وجہ سے براہ راست نبی کریم ﷺ سے پوچھنے میں شرم محسوس کرتا تھا۔ میں نے مقداد بن اسود سے کہا، انہوں نےآپﷺ سے پوچھا، آپﷺ نے فرمایا: ’’(اس میں متبلا آدمی) اپنا عضوِ مخصوص دھوئے اور وضو کر لے۔‘‘ (صحیح مسلم 303)

باقی اجزاء کی تفصیل حیض و نفاس کے مسائل میں ذکر ہو گئ (ان شاءاللہ)

2۔ اونٹ کا گوشت کھانے سے
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ؟ قَالَ: «إِنْ شِئْتَ فَتَوَضَّأْ، وَإِنْ شِئْتَ فَلَا تَوَضَّأْ» قَالَ أَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ؟ قَالَ: «نَعَمْ فَتَوَضَّأْ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ» قَالَ: أُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ: أُصَلِّي فِي مَبَارِكِ الْإِبِلِ؟ قَالَ: «لَا»
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: کیا میں بکری کے گوشت سے وضو کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’چاہو تو وضو کر لو اور چاہو تو نہ کرو۔‘‘ اس نے کہا: اونٹ کے گوشت سے وضو کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، اونٹ کے گوشت سے وضو کرو۔‘‘ اس نے کہا: کیا بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ اس نے کہا: اونٹوں کے بٹھانے ک جگہ میں نماز پڑھ لوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ (مسلم 360)
حکمت
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے’’ اعلام الموقعین‘‘ (۱ /۱۴۷) میں اس کی بڑی عمدہ اور معنوی اعتبار سے بڑی معقول وجہ بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
روایات میں آیا ہے کہ ہر اونٹ کی کوہان پر شیطان ہوتا ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ اونٹ جنوں میں سے ہیں اور انھیں سے پیدا کیے گئے ہیں‘
لہٰذا ان میں قوت شیطانیہ ہوتی ہے اور کھانے والے کی مشابہت کھانے کے ساتھ ہوگی‘ اس لیے جب کوئی شخص اونٹ کا گوشت کھائے گا تو اس میں ازخود قوت شیطانیہ پیدا ہوگی۔ اور شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اور آگ کو پانی کے ذریعے سے بجھایا جاتا ہے۔
حدیث مذکور بھی اسی کیفیت کی ترجمان ہے۔ جب بندہ اونٹ کا گوشت کھا کر بعد میں وضو کرے گا تو اس کے وضو میں وہ چیز شامل ہوگی جو اس شیطانی قوت کو بجھائے گی اور ایسی صورت میں یہ فساد انگیز چیز زائل ہوجائے گی۔

3۔ گہری نیند سو جانا
جب انسان اتنا گہرہ سو جائے کہ اسکے حوش و حواس ہی برقرار نہ رہیں،اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اس سے کیا کچھ رونما ہوا ہو گا۔اور وہ گہری نیند ٹیک لگا کر،بیٹھ کر،کھڑے حالت میں ،لیٹ کر جیسے بھی سو جائے تو وضوء ٹوٹ جائے گا
حضرت عائشہؓ نبی ﷺ کی رات کی عبادت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم
ﷺ نماز وتر سے پہلے کچھ دیر سو جایا کرتے تھے ،پھر کھڑے ہو کر وتر ادا کرتے تو میں نے عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ تَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ قَالَ تَنَامُ عَيْنِي وَلَا يَنَامُ قَلْبِي
یا رسول اللہﷺ ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے کیوں سوجاتے ہیں ؟
آپ نے فرمایا :میری آنکھیں سوجاتی ہیں لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے ۔
حضرت عائشہؓ کے سوال کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ سو جانے سے تو وضوء ٹوٹ جاتا ہے تو آپ وضوء کے بغیر ہی نماز پڑھنے لگ گئے
تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا
میری آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن دل بیدار رہتا ہے۔
اور یہ ہر نبی کا خاصہ بھی ہوتا ہے۔
ارشادِ نبویﷺ
وَكَذَلِكَ الْأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ
اور تمام انبیاءؑ کی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ جب ان کی آنکھیں سوجاتی ہیں تو دل اس وقت بھی بیدار ہی رہتا ہے ۔ (3570 بخاری)
گویا معلوم ہوا گہرا سو جانے سے وضوء ٹوٹ جائے گا۔
البتہ اگر ہوش وحواس قائم ہوں تو وضوء برقرار ہی رہے گا۔
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْتَظِرُونَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، حَتَّى تَخْفِقَ رُءُوسُهُمْ، ثُمَّ يُصَلُّونَ وَلَا يَتَوَضَّئُونَ
انسؓ بیان کرتے ہیں:
نبیﷺ کے صحابہؓ نمازِ عشاء کا انتظار کرتے رہتے حتیٰ کہ (نیند کی وجہ سے) ان کے سر جھک جاتے، پھر وہ نماز پڑھتے لیکن وہ (نیا) وضو نہ کرتےتھے ۔ (رواہ ابوداؤد 200)

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب انسان لیٹ کر سوگیا ہو تو وضوء ٹوٹے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس حالت میں بھی گہرائی کے ساتھ سو جائے تو وضوء ٹوٹ جائے گا۔
جن روایات میں لیٹ کر سونے کا ذکر ہے انکا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر گہرائی سے نیند لیٹ کر سونے سے ہی آتی ہے۔اس لئے لیٹنے کا ذکر ہے
اس مسئلہ میں ایک واقعہ بہت عمدہ وضاحت پیش کرتا ہے
ایک عجیب واقعہ
ا علامہ ابن عبد البرؒ نے موطا امام مالک کی شرح ’’التمہید‘‘ میں امام ابو عبیدؒ سے ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہےـ
موصوفؒ فرماتے ہیں:
’’میں یہ فتویٰ دیا کرتا تھا کہ اگر کوئی شخص بیٹھا بیٹھا سو جائے تو اس پر وضو کرنا واجب نہیں ہے، یعنی اس کا وضو ایسی حالت کی نیند سے نہیں ٹوٹتا اور میں اس رائے پر اس وقت تک قائم رہا، جب تک یہ واقعہ رونما نہ ہوا
کہ ایک شخص جمعہ کے دن میرے ساتھ بیٹھا بیٹھا سوگیا۔ نیند کے دوران میں اس کی ہوا خارج ہوگئی۔ میں نے کہا کہ جاؤ وضو کرو۔ اس نے کہا کہ میں تو سویا ہی نہیں۔ (غالباً اس کی مراد لیٹ کر سونے سے تھی) میں نے کہا: کیوں نہیں! تم سو گئے تھے اور تمھاری ہوا بھی خارج ہوگئی ہے، جو ناقضِ وضو ہے۔
اس پر اس نے اللہ کی قسم کھائی کہ میں سویا ہوں نہ مجھ سے ہوا خارج ہوئی ہے اور الٹا مجھے کہنے لگا کہ تمھاری ہوا خارج ہوئی ہے،
اس واقعہ کے بعد میں نے بیٹھے بیٹھے سونے والے شخص کے بارے میں اپنی رائے بدل لی۔ (یعنی یہ رائے اختیار کر لی کہ انسان جس حالت میں بھی گہرا سو جائے تو وضوء ٹوٹ جائے گا

4۔ شرمگاہ کو ہاتھ لگ جانا

انسان بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگا لے تو اسکا وضوء ٹوٹ جائے گا،اب نماز پڑھنے کیلئے دوبارہ سے وضوء کرنا ہوگا

بسرہ بنت صفوانؓ فرماتی ہیں
سمعت رسول اللهﷺ يقول:” من مس ذكره فليتوضا”
میں نے رسول وسلم کو فرماتے سنا: ”جو اپنا عضو تناسل چھوئے وہ وضو کرے“۔(ابوداؤد181)

اور یاد رہے:یہ حکم جس طرح مردوں کے لیے ہے، اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے۔ کیونکہ وہ شقائق الرجال ہیں۔
اور نبی ﷺسے منقول بھی ہے کہ:
«ايما امراة مست فرجها فليتوضا» ”
جس عورت نے اپنی شرمگاہ کو چھوا تو وہ وضو کر لے۔“
[مسند امام احمد: 223/2، سنن الكبري للبيهقي: 228/1 )

پردہ کے اوپر سے شرمگاہ کو چھو لینا
ہاں البتہ اگر کسی رکاوٹ یا پردہ کے اوپر سے شرمگاہ کو ہاتھ لگا ہو تو پھر وضوء نہیں ٹوٹے گا
ابو ہریرہؓ سے منقول ہے کہ:
«اذا افضي احدكم بيده الي فرجه، وليس بينهما ستر ولا حجاب فليتوضاء» [صحيح ابن حبان 1118]
” جب تم میں سے کسی نے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے چھو لیا اور ان (ہاتھ اور شرمگاہ) کے درمیان کوئی رکاوٹ یا پردہ نہ ہو اسے وضو کرنا چاہئے۔“
نوٹ
شک کی بنیاد پر وضوء نہیں ٹوٹتا
بسا اوقات انسان کے پیٹ میں گیس یا معدہ خرابی کی وجہ سے پیٹ میں آوازیں یا ہلچل سی مچی ہوتی ہے،جس سے یوں شک ہوتا ہے کہ ”وضوء” ٹوٹ گیا ہے ہلانکہ وضوء نہیں ٹوٹا ہوتا۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا، فَأَشْكَلَ عَلَيْهِ أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لَا، فَلَا يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا، أَوْ يَجِدَ رِیحًا
’’جب تم میں سے کسی کو اپنے پیٹ میں کچھ محسوس ہو اور اسے شبہ ہو جائے کہ اس میں سے کچھ نکلا ہے یا نہیں تو ہرگز مسجد سے نہ نکلے یہاں تک کہ آواز سنے یا بو محسوس کر لے۔‘‘(صحیح مسلم362)
خلاصہ
وضوء توڑنے والی چار چیزیں ہیں۔
دونوں شرمگاہ سے کسی چیز کا نکلنا
گہری نیند سو جانا
اونٹ کا گوشت کھا لینا
بغیر رکاوٹ کے شرمگاہ کو چھو لینا

( متعلقاتِ نواقض الوضوء)

وضوء ٹوٹ جانے کے متعلق کچھ ایسی چیزیں جو ہمارے معاشرے میں بہت مشہور ہیں،
ان میں چند ایک کی حقیقت شرعیت کے آئینہ میں درج ذیل ہیں
1۔۔ خون نکلنے سے وضوء کا ٹوٹ جانا
۔
1۔امام بخاریؒ نے صحیح البخاری میں کتاب الوضو میں غزوہ ذات الرقاع کا ایک مختصر واقعہ نقل کیا ہے ،جو دوسری کتب حدیث میں مفصل موجود ہے۔
خلاصہ یہ ہے
کہ جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں نکلے۔ایک آدمی نے مشرکین کی ایک عورت کو پالیا۔جب رسول اللہﷺ واپس پلٹے اس کا خاوند جو اس وقت موجود نہ تھا واپس آیا۔تو اسے اس واقعہ کی خبر دی گئی تو اس نے حلف اُٹھایا کہ وہ اس وقت تک رکے گا نہیں جب تک محمدﷺ کے ساتھیوں کا خون نہ بہادے۔تو وہ رسول اللہﷺ کی تلاش میں نکلا۔جب رسول اللهﷺ ایک مقام پر اُترے توآپﷺ نے فرمایا:
آج رات پہرہ کون دے گا؟
تو ایک مہاجر (عمار بن یاسرؓ)اور ایک انصار صحابی(عباد بن بشرؓ) نے لبیک کہا۔
آپ نے فرمایا:
اس گھاٹی کے دہانے پر تم دونوں پہرے کے لیے چلے جاؤ کیونکہ وہاں سے دشمن کے آنے کا راستہ ہو سکتا تھا۔تورسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ گھاٹی کی نشیبی جانب چلے گئے۔جب وہ دونوں پہرہ دینے کیلئے گھاٹی کے دہانے کی طرف گئے تو انصاری صحابيؓ نے مہاجر سے کہا کہ آپ رات کے اول حصے میں پہرہ دینا پسند کریں گے یا رات کے آخری حصے میں ؟انصاری کے لیے رات کا پہلا حصہ قرار پایا اور مہاجر ساتھی لیٹ کر سوگیا اور انصاری نماز پڑھنے کھڑا ہوگیا۔اتنے میں وہ آدمی (جو تلاش میں نکلا تھا) آیااور جب اس نے گھاٹی کے دہانے پر ایک شخص دیکھا تو اُس نے سمجھا کہ یہ قوم کا پہریدار ہے تو اس نے ایک تیر مارا جو انصاری صحابیؓ کو لگا۔
انصاری نے وہ تیر نکال کر پھینک دیا اور سیدھا کھڑا ہوکر نماز پڑھتا رہا۔ پھر اس نے دوسرا اور تیسرا تیر مارا۔انہوں نے یکے بعد دیگرے وہ تیر اپنے جسم سے نکال کر پھینک دیے اور برابر نماز پڑھتا رہا۔ پھر رکوع وسجودکیے پھر بعدمیں اپنے مھاجر ساتھی کو بیدار کیا۔
جب اس آدمی نے ایک کی بجائے دو دیکھے تو وہ بھاگ گیا۔مہاجرنے اپنےانصاری ساتھی کو دیکھا کہ اس کے جسم میں خون ہی خون بہہ رہا ہے تو فرمایا:سبحان اللہ تم نے مجھے بیدار کیوں نہیں کیا؟ تو انصاری صحابیؓ نے کہا:میں ایک ایسی سورت (الکہف) پڑھ رہا تھا میرا دل نہ چاہا میں اسے ختم کرنے سے پہلے ہی رکوع کروں۔
جب مجھ پر یکے بعد دیگرے تیر برسائے گئے تو مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں مجھے موت آنے کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے میرے ذمہ جو کام لگایا تھا وہ کہیں نہ رھ جائے۔
اگر یہ ڈرنہ ہوتا تو میں مرجاتا مگر سورت ختم ہونے سے پہلے رکوع نہ کرتا۔ (سنن دارقطنی(858۔ابوداود 198، مستدرک حاکم 1/156)

اس واقعہ کو امام حاکمؒ،امام ذہبی ؒ امام ابن حبانؒ اور امام ابن خزیمہؒ نے صحیح قرار دیاہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم سے خون نکلنے پر وضو نہیں ٹوٹتا۔ اگرخون کی نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا تو یہ صحابیؓ اپنی نماز کو توڑ دیتے لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

یقیناً اس واقعہ کی خبر رسول اللہﷺ کو بھی ہوئی ہوگی کیونکہ یہ تو ناممکن بات یے کہ اتنا بڑا واقعہ رونما ہوا اور آپ اس سے بے خبر ہوں۔اگر آپ ﷺکو خبر ہوئی تو اب خون کے ناقض ہونے کی صورت میں ضروری تھا کہ آپﷺ اس کی وضاحت کرتے اور نماز کے فاسد ہونے کا ذکر کرتے۔لیکن آپﷺ نے ایسا نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خون ناقض وضو نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
“وأراد المصنف بهذا الحديث الرد على الحنفية في أن الدم السائل ينقض الوضوء ” (فتح الباری 1/281)
“امام بخاریؒ نےیہ حدیث ذکر کر کے احناف کاردکیاہے جو یہ کہتے ہیں کہ بہنے والا خون ناقض وضو ہے۔”

۔مسور بن مخرمہؒ بیان کرتے ہیں:
” فَصَلَّى عُمَرُ وَجُرْحُهُ يَثْعَبُ دَمًا”
“عمرؓ اس حالت میں بھی نماز پڑھتے رہے کہ ان کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔”
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نےاسے صحیح قرار دیا ہے۔(فتح الباری 1/281)
مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا،
وضوٹوٹنے کے متعلق جتنی بھی روایایت پیش کی جاتی ہیں،وہ سب قابل حجت نہیں۔تفصیل کے لیے کتب احادیث کا مطالعہ کیجئے۔
2..عورت کو چھونے سے
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں:
(( فَقَدْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَیْلَۃً مِّنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُہٗ فَوَقَعَتْ یَدِيْ عَلٰی بَاطِنِ قَدَمَیْہِ وَھُوَ فِيْ الْمَسْجِدِ وَھُمَا مَنْصُوْبَتَانِ ))
’’ایک رات میں نے نبیِ اکرمﷺ کو بستر پر نہ پایا۔ میں آپﷺ کو تلاش کرنے لگی تو میرا ہاتھ آپ کے قدموں پر لگا، جب کہ آپﷺ سجدے کی حالت میں تھے اور آپﷺ کے دونوں پاؤں کھڑے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم)

سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
(کُنْتُ أَنَامُ بَیْنَ یَدَيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَرِجْلَایَ فِيْ قِبْلَتِہٖ، فَإِذَا سَجَد غَمَزَنِيْ فَقَبَضْتُ رِجْلَيَّ)
’’میں نبیِ اکرم ﷺ کے سامنے سو جاتی اور میرے پاؤں نبیِ اکرم ﷺ کی جائے سجدہ پر ہوتے تھے۔ جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو مجه چوکا فرماتے، تب میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی۔‘‘( بخاری مسلم)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو چھو لینے سے وضوء نہیں ٹوٹتا۔
قرآن مجید میں جہاں عورت کو چھو لینے کے الفاظ ہیں وہاں چھونے سے مراد ”جماع” ہے۔محض صرف ہاتھ لگانا نہیں ہے۔
نوٹ
حقہ اور سگریٹ پینے،گالی دینے،اور نسوار کھانا اگرچہ جائز نہیں لیکن ان سے وضوء نہیں ٹوٹتا۔
اسی طرح کھانا کھانے،دودھ پینے وغیرہ سے بھی وضوء نہیں ٹوٹتا۔
والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

تحریر: ابو محمد اویس قرنی

یہ بھی پڑھیں: آئیں مسنون وضو کرنا سیکھیں