سوال

اگر ساڑھے سات تولہ سونے سے تھوڑاسا بھی کم ہو تو زکوۃ نہیں پڑتی ،اس طرح چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ہے اگر اس سے تھوڑی سی بھی کم ہے تو زکوۃ نہیں دینا ہوگی ۔اور پیسے جن کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی سے زیادہ ہے تو اس پہ بھی زکوۃ دینا ہوگی۔ اور چاندی کی قیمت اس وقت تقریبا ایک لاکھ دس ہزار کے قریب قریب ہے۔
سوال یہ ہےکہ میرا کاروبار تو ساڑھے باون تولے چاندی کی رقم سے زیادہ ہے۔اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ کے سونے کی رقم جو چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے، اس پہ بھی زکوۃدینا ہوگی۔ میں نے حساب لگایا ہے کہ اگر7 ماشے سونا ہوتو قیمت کے لحاظ سے چاندی کے نصاب کے برابر ہو جاتا ہے ۔تو کیا اس 7 ماشے سونا کی زکوۃ دینا ہو گی یا کہ ساڑھے سات تولہ سونا ہو گا تو زکوۃ واجب ہوگی ؟ برائے کرم تفصیل سے جواب عنایت فرما دیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

شریعت میں مختلف اجناس کے الگ الگ نصاب مقرر کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ان کو آپس میں ملانا جائز نہیں ہے۔ جس طرح سونے کا نصاب تقریبا ساڑھے سات تولے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے۔ اسی طرح زرعی پیداوار(چاول، چنا، گندم، جو، باجرہ وغیرہ) کا نصاب تقریبا 16 من مقرر کیا گيا ہے۔
اسی طرح حیوانات میں اونٹ، بھیڑ ،بکریاں، گائے وغیرہ کا الگ الگ نصاب ہے۔ یعنی اونٹ کم ازکم پانچ ہوں، اسی طرح گائے کم ازکم تیس ہوں اور بکریاں کم ازکم چالیس ہوں، تو ان میں زکاۃ فرض ہوتی ہے۔
لہذا اگر کسی کے پاس چار اونٹ، اور 30 بکریاں ہیں، یہ 30 بکریاں ملا کر ایک اونٹ کے برابر تو ہو ہی جائیں گی، تو اس کو ملا کر 5 اونٹ بنا لیں اور زکوۃ فرض کر دیں ،ایسا نہیں ہوگا۔
اسی طرح آپ کے پاس 8من گندم اور 8من چنا ہے، اس پہ بھی زکوۃ فرض نہیں ہوگی، حالانکہ دو اجناس کی مجموعی مقدار 16 من بن رہی ہے۔
اسی طرح سونا، چاندی اور نقدی یہ تینوں الگ الگ جنس شمار ہوں گی، اور ان کے نصاب کا اعتبار بھی الگ الگ ہوگا۔
سونا اور چاندی کی زکاۃ اور نصاب تو منصوص ہے، جبکہ نقدی بعد کی ایجاد ہے، لہذا اس کو قیاس کرتے ہوئے، اس میں زکاۃ ادا کی جاتی ہے، کیونکہ دونوں میں علت مشترک ہے، اور وہ ہے ثمن اور قیمت ہونا۔ یعنی جس طرح سونا اور چاندی کے سکے یعنی درہم و دینار اشیاء خریدنے کے لیے بطور قیمت استعمال ہوتے تھے، اسی طرح نقدی یعنی نوٹ اور سکے وغیرہ اس کام کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
سونا چاندی میں سے بھی نقدی کو چاندی کے ساتھ ملا کر نصاب اس لیے بنایا جاتا ہے، کیونکہ اس میں احتیاط بھی ہے اور غرباء ومساکین کا فائدہ بھی۔ لہذا نقدی کا نصاب ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر مقرر کیا جاتا ہے، جو کہ آج کل تقریبا سوا لاکھ روپیہ بنتا ہے۔
لیکن جس طرح زرعی پیداوار یا حیوانات میں مختلف اجناس و اقسام کو ملا کر نصاب نہیں بنایا جائے گا، اسی طرح یہاں بھی سونا، چاندی اور نقدی کو ایک شمار کرکے نصاب نہیں بنایا جائے گا، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے۔
مثلا آپ کے پاس ایک تولہ سونا ہے، دس تولے چاندی ہے اور پچاس ہزار نقدی ہے ، تو تینوں میں سے کوئی چیز بھی نصاب کو نہیں پہنچ رہی، لہذا کسی ایک میں بھی زکاۃ نہیں ہے، حالانکہ اگر پچاس ہزار کے ساتھ سونا اور چاندی کی قیمت بھی شامل کرلی جائے، تو نصاب مکمل ہوجاتا ہے، اسی طرح اگر ایک تولہ سونے کو چاندی میں تبدیل کردیں، تو بھی نصاب مکمل ہوجاتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ تینوں الگ الگ جنس شمار ہوتی ہیں، تو ان کے نصاب کا اعتبار بھی الگ الگ ہی ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جن اجناس میں بھی زکاۃ فرض ہے، ان میں سے اکیلی جنس نصاب کو پہنچ جائے تو اس میں زکاۃ ہوگی، کسی دوسری جنس سے ملا کر زکوۃ لاگو نہیں کی جائے گی۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ