دیکھیں، آپ اپنی رائے بیان کر دیں لیکن کسی پر تھوپیں ناں۔ میں ایک وقت میں کشمیر کے بارے اپنی رائے شد و مد سے بیان کرتا تھا لیکن اس کے بعد ذہن یہ بنا کہ ہمارے لیے کشمیر کے حالات ایک خبر ہیں جبکہ وہاں رہنے والوں کے لیے حال ہیں۔ اور خبر کبھی بھی احوال کے برابر نہیں ہو سکتی لہذا زیادہ بہتر یہی ہے کہ خود اسی قوم کو یہ فیصلہ کرنے دیا جائے کہ اس نے کیا کرنا ہے کہ جس پر گزر رہی ہو۔ مجھے یا آپ کو آج کوئی یہ بتلائے کہ اسے گردے میں پتھری کی تکلیف ہے تو ہمارے لیے یہ ایک خبر ہے جبکہ آزمائش میں مبتلا شخص کے لیے ایک حال اور احساس ہے۔ ہم دونوں اس تکلیف کو جاننے میں کبھی بھی برابر نہیں ہو سکتے۔
ان سب باتوں کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہماری کوئی سیاسی رائے نہیں ہونی چاہیے، رائے ضرور رکھیں، لیکن کسی قوم کے بارے میں رائے رکھنے کا زیادہ حق اس قوم کو دیں کہ جس کا وہ مسئلہ ہو۔ میں آپ اپنی سیاسی رائے کا اظہار صرف اس لیے کریں کہ اگر کسی قوم میں ایک سے زیادہ آراء موجود ہیں تو وہ ان میں سے کسی ایک رائے کے موافق ہو جائے۔ لیکن بکواس اور رائے میں فرق ہوتا ہے۔ یہ جان کر جینا چاہیے۔ الفتح کی ایک سیاسی رائے ہے، ہمارے لیے قابل احترام ہے کہ وہ میدان عمل میں ہیں، کچھ کر رہے ہیں۔ لیکن جو اسرائیل کی خاموش حمایت میں حماس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو یہ رائے نہیں ہے۔
پس فلسطینی اور کشمیری اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مسائل کا حل سیاسی ہے تو ان کی اس رائے کا احترام کریں۔ اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مسئلے کا حل جہاد ہے تو اس رائے کا بھی احترام کریں کہ بم ان کے ہسپتالوں پر گرتے ہیں، ہمارے اوپر نہیں۔ اور اگر ان میں آپس میں ہی رائے کا اختلاف ہو جائے تو کسی ایک کی رائے سے موافقت اختیار کر لینے میں حرج نہیں ہے۔ باقی یہ سیاسی معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جن میں ایک نہیں بیسیوں پہلو دیکھنے کے لائق ہوتے ہیں۔ ایک ایک جملہ فکر کے دسیوں زاویے کھول دیتا ہے۔
ٹوئٹر پر بحث ہوئی کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے غلطی کی ہے کہ اب اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر قبضے اور فلسطینیوں کو مارنے کا بہانہ مل جائے گا۔ حماس نے اس کا جواب یہ دیا کہ اسرائیل تو حماس کے حملے سے پہلے بھی غزہ کی پٹی پر قبضہ اور فلسطینیوں کا قتل عام بھی کر چکا تھا۔ پس حماس حملہ نہ بھی کرتا تو بھی اسرائیل شروع دن سے یہی کام کرتا چلا آ رہا ہے۔ شاید ایسے حملوں سے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی اس نسل کشی (geocide) میں کچھ وقفہ آ جاتا ہو۔ اب یہ حالات کو دیکھنے کی بالکل ایک دوسری کھڑکی ہے جو ایک دوسرا منظر دکھاتی ہے۔ احمد جاوید صاحب کہا کرتے تھے کہ اس پر اصرار نہ کرو کہ سورج صرف تمہاری کھڑکی سے ہی نظر آتا ہے۔
یہاں مسئلے دو ہیں؛ ایک عرب ریاست فلسطین کا قیام تو یہ مقامی عربوں کا بنیادی حق ہے اور پوری دنیا کے مسلمان اور غیر مسلم ان کے اس حق کے حصول کے لیے ان کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اب اس میں فلسطینیوں میں دو طرح کی جماعتیں ہیں، ایک وہ ہیں کہ جن کا مقصد محض ایک عرب ریاست کا قیام ہے اور وہ قوم پرست یا کمیونسٹ نظریات کی حامل ہیں جیسا کہ الفتح اور پی ایل او کا اتحاد وغیرہ۔ دوسری طرف اسلام پسند ہیں جو ایک اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں جیسا کہ حماس وغیرہ۔ تو ہمارا رجحان اور میلان واضح طور حماس وغیرہ کی طرف ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ دونوں طرح کی تنظیموں کا مشترکہ مقصد فلسطین کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا قیام ہے لہذا اس اعتبار سے دونوں کی حمایت کرنی چاہیے۔
دوسرا مسئلہ حرم شریف، بیت المقدس اور مسجداقصی کا مسئلہ ہے۔ یہ محض مقامی عرب یا فلسطینی مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ اس کی آزادی کی جدوجہد تمام امت کے لیے فرض ہے۔ اس کی آزادی کے بارے رائے کا حق جتنا فلسطینیوں کا ہے، اتنا ہی کسی بھی مسلمان قوم کا بھی ہے۔ لہذا حرم شریف، بیت المقدس اور مسجد اقصی کی صیہونیت سے آزادی کے حوالے سے فلسطینیوں کی حکمت عملی یا اسٹریٹیجی سے اختلاف کرنے میں حرج نہیں۔ کوئی بھی مسلم ریاست اس علاقے کو صیہونی اور اسرائیلی قبضے سے آزاد کروا کے اسے اپنی عمل داری میں لے سکتی ہے۔ یہ علاقہ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں، کوئی 37 ایکٹر یا 297 کنال پر مشتمل ہے۔
باقی ہم نے بھی خوارجیت کے رد میں کتاب لکھی تھی کہ مسلمانوں سے جہاد کا کیا معنی، یہ تو فساد ہے۔ پس یہ ایک انتہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہی جہاد شروع کر دیا۔ اور دوسری انتہا یہ ہے کہ بدترین کفار کے خلاف جہاد پر بھی تنقید ہو رہی ہے، اور جہاد بھی اقدامی نہیں، دفاعی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ حماس کا حملہ دفاعی کیسے ہو گیا۔ تو تاریخ فلسطین پہلے دن سے یہی بتلا رہی ہے کہ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ناجائز ہے۔ اور اپنی مقبوضہ زمین چھڑوانے کے لیے جہاد کرنا دفاعی جہاد ہے۔ اب یہ علیحدہ بات ہے کہ دفاعی جہاد کے لیے مناسب وقت، تیاری اور طریق کار پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاد کی تو مخالفت نہ کریں ناں۔ اور وہ بھی تاریخ کے بد ترین ظالموں کے خلاف۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ انڈیا کے ایک مولوی صاحب ایک عربی کتاب کا ترجمہ کرتے ہیں کہ جس کا عنوان یہ ہے کہ “حماس کا اصلی چہرہ”۔ دوسری طرف اسرائیل، غزہ پر بمباری کر رہا ہے، دو ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے، ہسپتالوں پر بمباری ہو رہی ہے، شہر کھنڈر بن چکا، لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے، پوری عیسائی دنیا اور یورپ اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرے کر رہا ہے، ایک قیامت کبری برپا ہے، غزہ پر ظالم بھی روئے بغیر نہ رہ سکا لیکن ان نام نہاد مدخلی سلفی مولبیوں کی اسرائیل کے مظالم پر کوئی کتاب نظر نہیں آئے گی۔
دوسری طرف عیسائیوں کے گرجا گھر ہیں، ان کے دل اتنے نرم ہو چکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو پناہ دے رہے ہیں اور اسرائیل ان گرجا گھروں پر بھی حملے کر رہا ہے، لیکن ان مدخلیوں کے دلوں میں مسلمان امت کے لیے کوئی نرمی پیدا نہیں ہو رہی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے دلوں میں اس امت کے خلاف نفرتیں ہی اتنی بھر دی گئی ہیں کہ یہ امت کا درد محسوس کرنے سے محروم ہو چکے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ امت ایک جسم کی مانند ہے، اگر اس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اب چونکہ یہ جسم کا حصہ ہی نہیں ہیں اور نہ سمجھتے ہیں لہذا اس تکلیف کو محسوس بھی نہیں کر پاتے جو اس امت پر کچھ گزرنے سے اس امت کو ہوتی ہے۔
اور جو بھی ان مدخلیوں کو سنتا اور پڑھتا ہے، یہ اس کے دل میں بھی اس امت کے خلاف اتنا ہی بغض بھر دیتے ہیں کہ ایک یہودی، عیسائی اور ہندو سےبھی زیادہ ایک کلمہ گو مسلمان سے نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کے حواس پر صیہونی کی بجائے بدعتی سوار ہے۔ یہ ہندو کو قبول کر لیں گے لیکن بدعتی کو نہیں۔ یہ ایک مکمل بیانیہ ہے کہ جسے مدخلی بیانیہ کہتے ہیں۔ سعودی عرب میں ان سے کام لے کر ان لوگوں کو سائیڈ لائن لگا دیا گیا ہے، اب ان کی حیثیت ایک استعمال شدہ ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے لیکن انڈیا میں یہ فتنہ اپنے عروج پر ہے۔ اور اس کی وجہ صاف سمجھ آتی ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی مصریوں کی لمبی غلامی نے یہ سوچ پیدا کر دی تھی اے موسی آپ اپنے رب کے ساتھ جا کر قتال کریں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں یہ کراچی کے مخصوص اور سندھ کے چند دیہی علاقوں کے علاوہ پنپ نہیں سکا۔ الحمد للہ علی ذلک۔
ٹھیک ہے کہ مسلمان کا مسلمان کے خلاف جہاد، فساد تھا لیکن اب کیا، صلیبیوں، صیہونیوں اور انتہا پسند ہندوؤں کے خلاف جہاد میں بھی مسلمانوں ہی کو کوسا جا رہا ہے اور مسلمانوں ہی کی غلطیوں کو اجاگر اور نمایاں کیا جا رہاہے، کیا ہی بدنصیبی ہے۔ اور ان بد نصیبوں نے وقت بھی کیا ڈھونڈا ہے کہ فلسطین جل رہا ہے اور یہ مسلمانوں کی غلطیاں نکال رہے ہیں کہ جہادی فلسطینی تنظیمیں غلط ہیں، حماس غلط ہے، اس کا اصل چہرہ دکھا رہے ہیں۔ اسرائیل کا اصل چہرہ دکھانے کی انہیں توفیق نہیں۔ وہی اصل میں صیہونیوں کے سہولت کار ہیں جو صیہونیوں کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو صیہونی اور اسرائیلی ایجنٹ کہہ رہے ہیں۔ یہی اس امت کے غدار ہیں۔ جب تک یہ امت ایسے غدار مولویوں کو منبر اور محراب سے اتار نہیں دیتی، اس وقت تک اس امت کے مسائل کا حل بہت مشکل اور ناممکن ہے۔ یہی درباری مولویوں کا وہ ٹولا ہے کہ جو اس امت کے زوال میں ہمیشہ سے برابر کا ذمہ دار رہا ہے۔ ان کو شٹ اپ کال دینا وقت کا ایک اہم دینی فریضہ ہے۔
اللہ عز و جل ان کے متبعین میں سے کسی کو وہ ایمانی اور دینی غیرت دے کہ وہ ان کے منہ پر ان کو شٹ اپ کال دے کہ فلسطین میں کیا خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور تم اس وقت ہمیں صیہونیوں کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین کا اصلی چہرہ دکھا رہے لیکن صدیوں کی غلامی پر اکتفا کرنے والے کیا کسی آزادی کی قدر و قیمت جانیں گے۔ ظالمو، کبھی صیہونیوں کا بھی اصلی چہرہ دکھاؤ۔ اللہ عزوجل نے ان سے وہ توفیق ہی چھین لی ہے اور یہی ان کی محرومی ہے کہ جسے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ اس امت کے خلاف ہی بول سکتے ہیں، یہ اس امت پر جرح کر سکتے ہیں، یہ اس امت میں کیڑے نکال سکتے ہیں، اسلام دشمن صیہونیوں کے خلاف نہ ان کے جذبات بھڑکتے ہیں، نہ انہیں کوئی ذہنی کوفت اور اذیت پہنچتی ہے۔ ان کا نزلہ گرتا ہے تو مسلمانوں پر ہی گرتا ہے۔
وہی کام جو مولانا وحید الدین خان صاحب نے کیا، یہ ان کے نقش قدم میں کر رہے ہیں کہ ساری زندگی صرف مسلمانوں کو کوسا ہے۔ مولانا وحید الدین خان صاحب تو پھر معقول آدمی تھے کہ تحریر کے ذریعے تذکیر کا ایک پورا منہج دے دیا اور اللہ نے ان سے خیر کا کام لے لیا۔ یہ تو اس قدر محروم ہے کہ سوائے چند تنقیدی تحریروں اور تقریروں کے ان کے بوجھے میں کچھ بھی نہیں۔ نوجوان ان کے فتنے سے بچ کر رہیں، ان کو سننے پڑھنے سے پرہیز کریں کہ یہ غلام، صرف غلام ہی بنا سکتے ہیں۔ ان میں آزادی والی رمق ہے ہی نہیں۔ غلامی ان کے خون میں رچ بس چکی ہے اور اس کی محبت بچھڑے کی محبت کی طرح ان کو پلا دی گئی ہے۔ یہ اس بچھڑے کی پرستش خود بھی آخر دم تک کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی طرف راغب کریں گے۔

ڈاکٹر محمد زیبر