دو دنوں سے کراچی میں الغزالی یونیورسٹی میں حاضری ہے جہاں کئی اکیڈیمک امور کے ساتھ ساتھ پاکستان میں قانون کی تعلیم کے ایک ایسے اسٹیٹ آف دی آرٹ پروگرام کے آغاز کے بارے میں مشاورت کا عمل جاری ہے جس میں اسلامی قانون کو مربوط انداز میں تدریس کے ہر مرحلے پر بنیادی اور اساسی اہمیت حاصل ہو۔
الغزالی یونیورسٹی کے قیام کے موقع پر ہم نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ یہ ادارہ شاندار تعلیمی خدمات کی روایات کو نئی جہتوں کے ساتھ آگے بڑھائے گا۔ ان دو دنوں کے دوران جامعة الرشيد اور الغزالی یونیورسٹی کی لیڈر شپ سے بہت سے مفید باتیں ہوئیں جن کی تفصیلات شئیر ہوتی رہیں گی۔ سردست تو اس سفر کے دوران بہت زیادہ خیال رکھنے اور میزبانی کا حق ادا کرنے پر جناب Nafees Ul Haq Saqib صاحب اور ہردلعزیز مولانا Abdul Wadood صاحب شکریہ۔
مفتی عبدالرحیم صاحب نے حسب سابق بہت محبت و شفقت کا مظاہرہ فرمایا۔ ان کی لیڈرشپ اور ویژن کا اعتراف تو ایک دنیا نے کیا ہے اور جو ادارے ان کی سرپرستی و سربراہی میں کام کر رہے وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
مزید پڑھیں: قانون کی تعلیم میں ناگزیر تبدیلیوں کی ضرورت
اس سلسلے میں یہ آراء بھی آئی ہیں کہ اس عمل کو مسلکی لیول پر بھی شروع کیا جانا چاہیے۔ میرا اس بارے میں یہ موقف ہے کہ مسلکی لیبل کے تحت اس قسم کا کوئی پراجیکٹ نمایاں اور بڑا کام نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے جس سطح کے رجال کار کی ضرورت ہے اور جو ہمہ گیر ایکٹیویٹی چاہیئے ہوتی ہے اسے کسی مخصوص مسلکی عنوان کے تحت کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔
کسی زمانے میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنے روزنامہ اخبارات نکالنے کی کوشش کی تھی۔ چونکہ صحافت کے کام کی نوعیت بھی اس قسم کے عنوانات کے تحت ہونے والے کاموں سے بالکل مختلف پے اس لئے آج وہ اخبارات نامعلوم ہو چکے ہیں۔ مسلکی شناخت کے حامل لوگ البتہ اس قسم کا بڑا کام ضرور کر سکتے ہیں اگر وہ خود کو ڈبوں کی قید سے نکالیں اور لبرل اپروچ کا اظہار کریں۔ یاد رہے کہ یہاں لبرل سے مراد نظریاتی جہت سے ہے۔
عزیز الرحمٰن