والد مکرم حضرت مولانا حافظ محمدیعقوب حفظہ اللہ

شرک بھی تھا اور بدعت بھی… ضلالت بھی تھی اور گمراہی بھی… معاشرے کی متعفن اقدار کی پاسداری بھی تھی… سماج کی اندھی بہری روایات پر عملداری بھی تھی… اردگرد کی فرسودہ قدروں پر جانثاری بھی تھی… مزارات اور میلوں پر آنا جانا بھی تھا… اور اپنادامن گرد جہالت کی دبیز تہہ میں دھنسا رکھا تھا… سوختہ بخت ایسے کہ اس گمراہی کے خلاف ایک لفظ بھی گوارہ نہیں تھا… دادا مرحوم گاؤں میں بریلوی مسلک کی مسجد کے منتظم بھی تھے اور موذن بھی… شرقپور کے مزارات اور گدی نشینوں کے مرید بھی … بے دینی اور کجروی کے اس عالم میں کسی کے لیے ہدائت کے راستے کھل جانا رب کائنات کی غیر معمولی نعمت ہوتی ہے… ہمارے گاؤں میں ایک ہی فرد مسلک توحید کا علمبردار تھا… چوڑی پیشانی، گورا رنگ، کتابی چہرہ، اس پر دلکش مسکراہٹ، بدن پر صاف ستھرا لباس، تہذیب وشرافت کامرقع اور سنجیدہ و پُروقار شخصیت ! جی ہاں ہمارے لیے ہدائت کا ذریعہ بننے والی اس شخصیت کا نام تھا استاذ الاساتذہ قاری عبدالشکور برق رحمۃ اللہ علیہ۔ مؤبرادری سے ان کاتعلق تھا۔ 1992 میں سعودی عرب میں روڈ ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں بیٹے سمیت جاں بحق ہوگیے تھے۔
وہ ولی کامل صوفی محمدعبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں مدرس تھے۔میرے ایک چچا تھے جن کا نام نذیر احمد تھا ، بیمار ہوئے اور بعد میں دنیا سے رحلت کرگئے۔ ان کی وفات پر میرے دادا سے تعزیت کے لیے قاری صاحب ہمارے گھر تشریف لائے۔ دادا جی نے ان کوکہا کہ یہ میرا بیٹا ہے اسے اپنے ساتھ لے جاؤ اور حافظ قرآن بنادو لیکن وہابی نہ بنانا۔ اس شرط پر وہ والد گرامی کو اپنے ساتھ ماموں کانجن لے گیے۔ وہاں پندرہ پارے حفظ کر لیے لیکن ابھی تک مسلک بریلوی تھا… ان دنوں ماموں کانجن سے تقریبا چالیس میل دور منڈی رجانہ تحصیل لائلپور میں ایک کانفرنس ہوئی تھی۔ جہاں حافظ محمدصدیق رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مسجد کی سنگ بنیاد رکھی تھی۔ جس میں صوفی محمدعبداللہ کو بھی مدعو کیا گیاتھا۔ اس کانفرنس میں سلطان المناظرین حضرت مولانا عبدالقادر روپڑی نے بھی تقریبا ساڑھے تین گھنٹے کا ایمان افروز خطاب فرمایا تھا۔ حضرت روپڑی کی خطابت کا جادو سرچڑھ کر بولتاتھا۔ الفاظ کا گنجینہ بے بہا ان کے آگے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا رہتا تھا۔ان کے طرز گفتار اور قدومعیار کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ ان کی زبان بے باک اور انداز رعب دار ہوتاتھا۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے قاری عبدالشکور برق میرے والد گرامی کو بھی ساتھ لے کر آئے تھے۔ قاری صاحب بہت دور اندیش اور معاملہ فہم انسان تھے۔ ان کی تمنا تھی کہ اسے حافظ عبدالقادر روپڑی کاخطاب سناؤں گا شائد اللہ اس کا سینہ توحید سے منور کردے اور اپنے گاؤں میں توحید کی اشاعت کے لیے میرا دست و بازو بن جائے۔ اب حضرت حافظ صاحب کا خطاب شروع ہوا تھا ، رات کا کافی حصہ بیت چکا تھا، قاری صاحب رات کے اس پہر دوکان سے کبھی ریوڑیاں لے لیتے اور کبھی مونگ پھلی۔ تاکہ دوران خطاب یہ ان کو چباتا رہے اور نیند کی آغوش میں نہ جائے۔ بہرحال والدگرامی نے تقریر سنی، باتیں دل سے نکلی تھیں اور دل میں گھر کر گئیں۔ حافظ صاحب کے خطاب کے بعد بریلوی مسلک کو چھوڑ کر اہل حدیث مسلک قبول کرلیا۔
ماموں کانجن مدرسے سے گھر آئے تو دادا جی ناراض ہوگیے۔ کہنے لگے تم نے مسلک اہل حدیث قبول کر لیا ہے لہذا میرے گھر سے نکل جاؤ! دادا مرحوم کی ناراضی اور گھر سے بے دخل کرنے کے بعد قاری عبدالشکور برق کے حکم پر والد محترم لسوڑھی والے لاہور چلے گیے۔ قاری صاحب کی خواہش تھی کہ دوران قیام لاہور میں حضرت روپڑی کے خطبات جمعہ سنے گااور تعلیم بھی مکمل کرلے گا۔ لاہور جانے کے بعد تین ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ باپ بیٹے کی جدائی میں تین مہینے گزر چکے تھے ، اب مزید وقت گزارنا دشوار ہوتا جارہا تھا، والد گرامی نے دادا کے نام ایک خط لکھا۔ جس میں ان کو خوش کرنے کے لیے بہت سی باتیں تحریر کیں۔ بہرحال اس خط کے بعد ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے کچھ نرمی ڈالی۔ چند دنوں بعد گھر واپس آئے ۔
ان دنوں قاری عبدالشکور برق نے ہمارے گاؤں میں اپنے گھر میں ایک مدرسہ شروع کیاتھا۔ جس میں ولی کامل حضرت مولانا حافظ محمدیحییٰ عزیز میرمحمدی نے مولانا عبدالغفار شاہ کو بطور مدرس بھیجاتھا۔کچھ دنوں بعد شرقپور میں عرس تھا۔ ہمارے گاؤں میں ایک بزرگ مولانا محمدشفیع مسکین ہوتے تھے ۔دادا جی ان کے بڑے عقیدت مند تھے ۔ وہ اور دادا جی عرس میں جانے کے لیے تیار ہوئے تو شاہ صاحب کوبھی اپنے ساتھ جانے کا کہا ۔ وہ ساتھ جانے پر راضی ہوگیے۔ جب لاہور پہنچے تو دادا جی کہنے لگے لاہور میں بیٹے کو ملتے جائیں۔ وہ جمعہ کا دن تھا۔ باہمی مشاورت سے جمعہ پڑھنے کے لیے چوک دالگراں کی جامع مسجد میں حافظ عبدالقادر روپڑی کاخطبہ
جمعہ سننے کے لیے چلے گئے۔ مالک کائنات کے کسی پر مہربان ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔ اب خطبہ جمعہ شروع ہوتاہے۔ شیریں انداز، قرآن اور احادیث کی بھرمار اور توحیدو سنت کی برسات تھی۔ حضرت حافظ صاحب کا انداز بیان دادا جی کے دل میں اتر گیا۔ جمعہ سے فارغ ہوکر شرقپور پہنچے۔ جہاں شرکیہ قوالیاں اور گمراہ کن کلام تھے۔ اب حافظ صاحب سے قرآن سناتھا اسی لیے ان قوالیوں سے دل اکتاگیا۔ بیٹے کے اہل حدیث ہونے پر سیخ پا ہونے والاخود اس دن اہل حدیث ہوگیا۔ الحمدللہ علی ذالک
اہل حدیث ہونے کے بعد دادا مرحوم نے قاری عبدالشکور برق کے ساتھ مل کر گاؤں میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی۔ جہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مسجد کے ساتھ ہی ایک عورت کا مکان تھا۔ اس نے ایک سرکاری افسر سے شادی کی تھی۔ وہ مسجد کے قیام کے سخت خلاف تھی۔ اس نے اپنے شوہر کو کہہ کر مقامی اور کچھ بیرونی بدمعاشوں سے مل کر مسجد کو مسمار کردیا۔ اس وقت ہمارا تھانہ رائیونڈ تھا۔ اس میں جماعت اسلامی لاہور کے رہنما حافظ سلمان بٹ کے والد خواجہ طفیل ایس ایچ او تھے۔ جو مسلکا اہل حدیث تھے۔ قاری عبدالشکور برق شیخ الحدیث مولانا عطاء اللہ بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ کے توسط سے ان کو ملے اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ خواجہ صاحب نے اس صورتحال پر ایکشن لیا اور یوں اللہ تعالیٰ نے ان کے ناپاک عزائم ناکام بنادیئے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد قاری عبدالشکور برق کے حکم والد محترم گاؤں میں درس و تدریس کے کام کاآغازاس شرط پر کیا کہ میں دین کاکام بے لوث کروں گا، اپنے اخراجات کاروبار کے ذریعے پورا کروں گا۔ حفظ قرآن قاری عبدالشکور برق سے مکمل کیا۔ درس نظامی ماموں کانجن میں شروع کیا۔ اس کے بعد مدرسہ ضیاء السنہ راجہ جنگ آگیے۔ جہاں پر قاری محمد عزیر، مولانا عبدالحفیظ جھجوی، متکلم اسلام حافظ عبدالرشید اظہر شہید سے کسب فیض کیا۔ اس جامعہ کے ناظم مولانا عبداللہ یوسف تھے۔
بخاری شریف پڑھنے کے لیے جامعہ اسلامیہ شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات مدراسی کے پاس چلے گیے۔ استاذ القراء قاری محمدادریس عاصم، شیخ الحدیث حافظ محمدعباس انجم گوندلوی اور قاری نورالحسن بورے والا والد گرامی کے ہم جماعت تھے۔
ہمارے گاؤں رتی پنڈی تحصیل کوٹرادھاکشن ضلع قصور کا جماعتی حوالے سے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ آج اللہ کے فضل واحسان سے والد گرامی کی حقیر کاوشوں سے دومنزلہ وسیع و عریض مسجد قائم ہے۔ جس میں مقامی اور بیرونی بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے گزشتہ چالیس سال سے مدرسہ جاری و ساری ہے۔ بیرونی طلباء کے قیام و طعام کا اہتمام جامعہ میں ہی کیا جاتاہے۔ اب تک سینکڑوں کی تعداد میں بچے قرآن پاک حفظ مکمل کرچکے ہیں۔ چار دہائیوں سے والد گرامی خطابت کی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔ خطبات جمعہ میں دوسرے مکاتب فکر کے کثیر تعداد موجود ہوتی ہے۔ میری اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ مالک الملک میرے ابو جی کو صحت و عافیت سے نوازے تاکہ دین کا یہ گلشن تادیر قائم و دائم رہے۔ آمین

یہ بھی پڑھیں: فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بن محمد بلال حفظہ اللہ

تحریر: صہیب یعقوب (بسلسلہ تعارف علماء)