سوال

بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش لیلتہ القدر کے قیام کا اہتمام کیا جاتا ہے اور درمیان میں دروس کا بھی۔ جس سے اعتکاف جیسی عظیم الشان سنت مجروح ہو رہی ہے۔ آپ اس پر اکابرین کی آراء کی روشنی میں ایک فتویٰ جاری کروا دیں۔
کیا یہ مروجہ طریقہ عبادت سنت سے یا آثارِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یا آئمہ کرام و محدثین عظام رحمہم اللہ سے ثابت ہے ؟ اگر نہیں ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟
محبکم: زوہیب جدون مکی

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پانچ ( 21،23،25،27،29)طاق راتیں آتی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی شب قدر ہوسکتی ہے، جس کی عبادت کو ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی افضل فرمایا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

{لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ}[القدر: 3]

’لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘۔
لیکن اس فضیلت والی رات کو اللہ نے مبہم رکھا ہے، تاکہ مسلمان اس کی تلاش اور جستجو کے شوق میں پانچوں طاق راتوں میں اللہ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے ہر معاملے میں اسوہ اور نمونہ ہیں، اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ آپ لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے ’اعتکاف‘ فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری:2027، صحیح مسلم:1167)
اعتکاف ’عکوف‘ سے ہے، جس کا مطلب ہے ٹھہرنا ، اور کسی خاص مقام پر اپنے آپ کو روکے رکھنا ۔ شرعی طور پر اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کےلئے خصوصی طور پر مسجد میں ٹھہرنا۔
تاکہ بندہ مومن ہر طرف سے یکسو ہو کر ، الگ تنہائی میں اپنے خالق و مالک کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر میں مشغول رہے ، توبہ و استغفار کرے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روئے ، اور آخری عشرے کے ان مقدس لمحات کو نوافل، تلاوتِ قرآن جیسی عبادات کی صورت میں بھر پور انداز سےگزارے، تاکہ اسے روحانی لذت بھی محسوس ہو، گناہوں کی معافی کا پروانہ بھی ملے اور ہزار مہینوں سے بھی افضل رات میں عبادت کی سعادت بھی حاصل ہوسکے۔
گویا اعتکاف کا اصل مقصد انفرادی عبادت ہے، جلسے جلوس اور اجتماعی عبادات اس مقصد و مطلوب سے ہم آہنگ نہیں۔
ان طاق راتوں میں مجالسِ وعظ کا اہتمام شبینوں کے مروجہ طریقے یا صلوۃِ تسبیح کا باجماعت رواج بالخصوص ختم قرآن کی رات تبلیغی جلسوں کا انعقاد یا ختم قرآن مجید کے بعد بلند آواز سے ہاتھ اٹھا کر اور بتیاں بجھا کر لمبی چوڑی اجتماعی دعائیں کرنا جیسا کہ بعض جگہ اہل حدیث میں بھی یہ رجحان پیدا ہو رہا ہے، بالکل بے ثبوت ہے۔خیرالقرون میں اس کا ثبوت نہیں پایا جاتا اس کی صراحت متقدمین اہل علم کے کلام میں موجود ہے۔چنانچہ آٹھویں صدی ہجری کے ایک مشہور مالکی فقیہ ابن الحاج رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’ختم قرآن کے موقع پر چاہے رمضان ہو یا غیر مضان وعظ و تقریر کا کوئی ثبوت نہیں اور جب احادیث میں اس کا کوئی ذکر(ثبوت) نہیں تو ایسا کرنا بدعت ہوگا‘۔ (المدخل:3/303)
امام مالک رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے کہ رمضان میں اصل چیز نماز (ا ور اس میں قراءتِ قرآن) ہے، نہ کہ وعظ و نصیحت وغیرہ۔ (المدونة:1/288)
مختصر یہ کہ ان مبارک راتوں میں مجالس و محافل اور وعظ و دروس، اور پھر ریفریشمنٹ کے نام پر کھانے پینے کی بجائے ساری توجہ قلب کو روحانی غذا پہنچانے کی طرف ہونی چاہیے،جس کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ انفرادی عبادات پر توجہ دی جائے۔ کیونکہ دل کی پاکیزگی، تطہیر اور بیداری اسی میں ہے ، نہ کہ مجالس و محافل اور اجتماعات میں، کیونکہ یہ امور دل و دماغ کو منتشر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
 رمضان المبارک کی طاق راتوں میں شب بیداری اور عبادت کا مسنون طریقہ از مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ ، بحوالہ: آثارِ حنیف:2/383،384۔
 رمضان کے آخری عشرے میں تقاریر کا اہتمام کرنا ، بحوالہ: فتاوی اصحاب الحدیث:5/227۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ