سوال (2455)
پہلی صف اگر مکمل ہو جائے تو اگر آدمی اکیلا ہو تو پہلی صف سے آدمی کھینچے گا یا اکیلا نماز پڑھ سکتا ہے؟
جواب
ایسا شخص جو صف مکمل ہونے کے بعد آتا ہے، اگر یہ شخص اضطرار سے فائدہ اٹھائے تو اکیلا بھی کھڑا ہوسکتا ہے، اس کے لیے دوسرا آپشن یہ ہے کہ آگے سے بندہ کھینچ لے، آگے والے اس بات پر عمل کریں کہ صف کو مکمل کرلیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ جب دو بندے نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں، اس وقت جب تیسرا بندہ آتا ہے تو امام آگے جاتا ہے یا اس بندے کو جو امام کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اس کو پیچھے کھینچا جاتا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے بندہ کھینچنے میں کوئی حرج نہیں ہے، علماء نے ایک صورت یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ شخص امام کے دائیں جانب جا کر کھڑا ہو جائے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
میں آپ کی بات کو آگے بڑھاؤں گا، جہاں تک سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ
“من صلى خلف الصف وحده فلا صلاة له”
«جس نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی ہے، اس کی نماز نہیں ہے»
اس سے مراد وہ بندہ ہے جو آگے صف میں جگہ خالی ہونے کے باوجود پیچھے اکیلے نماز پڑھتا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
سائل:
اس حدیث کا مفہوم ہم کیسے سمجھیں گے ، کوئی دلیل بتائیں؟
جواب:
اس بات کی بالکل دلیل موجود ہے، اس آدمی نے وضوء کیا ہے، نیت کی ہے، مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آیا ہے، اب اگر پہلی صف مکمل ہوچکی ہے تو اس میں اس کا تو کوئی قصور نہیں ہے ، کیا شریعت کا کوئی قاعدہ یا قانون ایسا ہے کہ کوئی آدمی اہتمام کرکے نماز کے لیے مسجد میں آیا ہو، شریعت کہے کہ تمہارا کوئی جرم و قصور نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود اگر تم صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھو گے تو تمہاری نماز نہیں ہوگی، کسی کا انتظار کرلو ، یہ مستقل حل نہیں ہے، اس لیے کہ کیا ثبوت ہے کہ کوئی ضرور آئے گا، یہاں دلیل فہم و سمجھ ہے، شریعت کا کسی کو بغیر کسی جرم کے اجر سے محروم نہ کرنا ہے، کوئی بھی ایسا قاعدہ قانون نہیں ہے کہ بندےکا کوئی قصور نہ ہو شریعت کہے کہ تمہیں اجر و ثواب نہیں ملے گا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
سائل:
دلیل حدیث سے چاہیے ، قیاس اور رائے سے نہیں؟
جواب:
ایک صحابی نے اکیلے نماز پڑھی تھی اس کی وضاحت میں سنن دارمی میں الفاظ ہیں
“ولم يتصل بالصفوف”
ان الفاظ کی وجہ سے بعض علماء یہی کہتے ہیں کہ یہ اس آدمی کے ساتھ خاص ہے، جو جگہ ہونے کے باوجود پیچھے اکیلا نماز ادا کرے، اگر کوئی صف مکمل ہونے کے بعد اکیلا نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائے گی
“لا يكلف الله نفسا إلا وسعها “
فضیلۃ العالم ابو سیاف حفظہ اللہ
صف مکمل ہونے کی صورت میں اگلی صف سے بندے کو پچھلی میں کھینچنا ایسے لوگوں میں کہ جہاں بندے کے نکلنے کے بعد اگلی صف کے خراب ہونے اور باقی لوگوں کے صف نہ ملائے جانے کا خدشہ ہو تو احوط یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ پچھلی صف میں اکیلے نماز پڑھے، اس لیے کہ اگلی صف سے بندہ نکالنے کے بعد ساری صف خراب ہوگی، لہٰذا اکیلے صف میں نماز پڑھنا بہتر ہے بجائے اس کہ پوری صف خراب ہوجائے اور ایسی صورتحال میں کہ پہلے سے ہی لوگوں میں صف بندی کا شعور نہیں ہو۔ واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث حافظ علی اکبر حفظہ اللہ
یہ ایک اہم مسئلہ ہے، اس مسئلہ میں بعض اہل علم نے پہلی صف سے آدمی پیچھے کھینچنے کا فتوی دیا ہے تو بعض اہل علم نے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونے کا، صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا حدیث کی رو سے منع ہے
سیدنا علی بن شیبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
“خرجنا حتي قدمنا علي النبي صلى الله عليه وسلم فبايعناه وصلينا خلفه ثم صلينا وراءه صلاة اخري فقضي الصلاة فراي رجلا فردا يصلي خلف الصف قال فوقف عليه النبي الله صلى الله عليه وسلم حين انصرف قال استقبل صلاتك لا صلاة للذي خلف الصف”
[ ابن ماجه ٨٢٩ ]
مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه میں امام بوصیری لکھتے ہیں اسنادہ صحیح ورجالہ ثقات
دوسرى روایت
سیدنا واصبه بن معبد سے روایت ہے۔
ان رجلا صلي خلف الصف وحده فأمره ان يعيد الصلاة
[سنن الترمذی: 230، ابوداؤد: 682]
اس روایت کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحق بن راھویہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
[ الاوسط فی سنن والاجماع والاختلاف لابن المنذر]
اس حدیث میں ذکر ہے کہ ایک آدمی اکیلا صف کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دوہرانے کا حکم دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اکیلے آدمی کی صف کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من وصل صفا وصل الله ومن قطع صفا قطع الله عزوجل
[سنن النسائي ٨٢٠ و ابو داؤد 666 ]
شيخ زبیر علي زئی رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن کہا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے ۔
“من وصل صفا” کا معنی جو صف میں شامل ہو کر یا صف کے خلل کو پورا کر کے صف ملائے اور “ومن قطع صفا” کا معنی جو غائب ہو کر یا خلا کو پورا نہ کر کے یا کوئی مانع چیز رکھ کر صف کاٹے
[صاحب عون المعبود: 2/366 ]
1: حماد بن ابی سلیمان تابعی فرماتے ہیں “يعيد الصلاة” ایسا شخص نماز دوبارہ پڑھے.
2: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحق بن راھویہ کا بھی یہی مذہب ہے کہ اکیلے آدمی کی صف کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ۔۔
3: امام وکیع بن جراح رحمه الله فرماتے ہیں “اذا صلي الرجل خلف الصف وحده يعيد الصلاة”
جب کوئی آدمی صف میں اکیلے نماز پڑھے تو وہ دوبارہ لوٹائے۔
4: امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
“صلاة الفرد خلف الصف باطل لثبوت خبر واصبة وخبر علي ابن الجعد الشيبان”
صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز فاسد ہے کیونکہ اس مسئلہ میں سیدنا واصبه رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی بن جعد بن شیبان رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہیں
5: امام ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی سیدنا واصبه رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں اقول به
میں بھی اسی طرح کا فتوی دیتا ہیں۔
خلاصہ کلام
ان سب روایات اور دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر صف میں پیچھے اکیلا آدمی کھڑا ہے تو وہ دوبارہ اپنی نماز کو لوٹائے گا اور اگلی صف میں سے کسی بھی آدمی کو نہیں کھینچے گا، کسی آدمی کو صف سے پیچھے کھینچنے سے صف میں خلل واقع ہو گا جو کہ صحیح نہیں اور اگلی صف ٹوٹ جائے گی ، صحیح مسلم میں روایت موجود ہے کہ صفوں کو مکمل کرنا نماز کا حصہ ہے۔
اس لیے اگلی صف سے آدمی کو نا کھینچا جائے کسی دوسرے آدمی کا انتظار کرے یا پھر جماعت میں شامل ہوجائے امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی نماز کو واپس لوٹائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث امتیاز احمد حفظہ اللہ