سیدہ ہند رضی اللہ عنھا کی شان اورمقام

سیدہ ہند رضی اللہ عنہا سے متعلقہ ایک معروف غیر صحیح واقعے کو بہت سے سُنی علماء بھی بیان کرتے ہیں اور ان کی کئی کتابوں میں بھی لکھا ہوا ہے۔
یہ زبان زدِ عام ہو جانے والا ایسا من گھڑت واقعہ ہے جس کو غیر شیعہ بھی سچ سمجھتے ہیں اور محض پڑھنے سننے کی بنیاد پر ہی اسے بیان کر دیتے ہیں۔ بہت سے تو ایسے بھی ہیں جن کو یہ تک علم نہیں کہ سیدہ ہند رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ سو اس تاثّر کی بنیادی وجہ جہالت کہی جا سکتی ہے، البتہ اہلِ رفض یا ان کے ہم نوالہ قصداً ہی ایسا کرتے ہیں۔
ایسی بات کہ جس سے اہلِ علم ہی آگاہ ہوں اور عوام کو علمی و تاریخی اعتبار سے اس کی حقیقت کا علم نہ ہو ، اس بارے میں غلطی کرنے والے بندے کے متعلق تھوڑی تحقیق کر لینا لازم ہے، تاکہ کوئی محض اپنی جہالت کی وجہ سے گستاخ قرار نہ پائے۔ پھر ہم سبھی اس ماحول سے بخوبی واقف ہیں کہ جہاں گستاخ قرار دیے جانے کے بعد بندے کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
شیر افضل مروت نے توجہ دلائے جانے کے بعد اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی، جس کے دو سبب ہو سکتے ہیں:
اسے پہلے اس واقعہ کے من گھڑت ہونے کا علم نہیں ہو گا۔
یا اس نے شدید ردِ عمل دیکھ کر ڈیلیٹ کر دی۔
ثانی الذکر بات تحقیق طلب ہے۔ اگر واقعتاً اس ٹویٹ میں بغضِ صحابہ بھی شامل ہے تو پھر اس کے خلاف کاروائی کا مطالبہ ضرور ہونا چاہیے۔
اس سب کے ساتھ ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اہلِ تشیع کے ایوریج عوام بھی اپنے امتیازی مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ ایک پکا ٹھکّا مسلمان بھی بنیادی اعتقادی مسائل سے واقف نہیں ہوتا۔
عوام کی طرف سے اس سلسلے میں عدمِ دلچسپی کے ساتھ ساتھ اہلِ علم حضرات کی عدمِ توجہ بھی ایک بڑا سبب ہے۔
ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی گلی، محلے، مارکیٹ، فیکٹری یا خاندان کی سطح پر تعلیم و تربیت کا نظم قائم کیا ہوا ہے؟؟
مجھ سمیت اکثر کا جواب نفی میں ہی ہو گا۔ ہم جیسے “علماء” کا علم سوشل میڈیا پر انڈیلنے یا اِدھر اُدھر دھاک بٹھانے کے لیے تو وافر دستیاب رہتا ہے لیکن اس کا حقیقی مصرف ان کی بے توجہی کا ہی شکار رہتا ہے۔
ہم سے اس بارے میں اللہ کے ہاں بھی لازماً باز پرس ہو گی۔
سو آج ہی سے ارادہ باندھیے اور اپنی اپنی سطح پر تعلیم کا کوئی نظم ضرور شروع کیجیے، تاکہ روز روز ایسے دل خراش واقعات دیکھنے کو نہ ملیں۔ والله الموقق.

فیض اللہ ناصر 

یہ بھی پڑھیں: جامعہ سلفیہ کے (سابقہ و حاضر )شیوخ الحدیث کا مختصر تعارف