سوال (406)
سخت سردی میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کر کے ادا کرنا جائز ہے ؟اگر جائز ہے تو کتنے دن تک جمع کر کے پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب
سخت سردی ، ہوا اور آندھی میں نمازوں کو جمع کرنے کے مباحث موجود ہیں ، کچھ علماء نے سخت سردی میں نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی ہے ، باقی نمازوں کی تعیین نہیں ہے کہ وہ نمازیں کونسی ہوں ، یہ حالات کے تقاضے کے مطابق ہوگا ، باقی سردی کتنی ہوگی یہ بھی حالات کے تقاضے کے مطابق ہوگا ، باقی یہ جواز جواز تک ہی رہے گا ، اس کو عادت نہ بنایا جائے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اس سلسلے میں رخصت کی نوعیت دو طرح کی ہے :
1۔ نمازوں کو جمع کرنا
2۔ نماز کو مسجد کی بجائے گھر میں ادا کرنا
سخت سردی میں رخصت جمع کی نہیں، بلکہ گھر میں ادائیگی کی ہے۔ یعنی نمازیں بر وقت ہی ادا کریں، لیکن سردی کے باعث مسجد میں جانا ممکن نہیں تو گھر میں ادا کرلیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ’کتاب الجماعۃ‘ کے اندر درج ذیل باب قائم کیا ہے:
«بَاب: الرُّخْصَةِ فِي الْمَطَرِ وَالْعِلَّةِ أَنْ يُصَلِّيَ في رحله».
’بارش یا مرض کے سبب خیمے میں نماز پڑھنے کی رخصت کا باب‘۔
پھر اس کے تحت درج ذیل حدیث لے کر آئے ہیں:
“عَنْ نَافِعٍ:أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَذَّنَ بِالصَّلَاةِ، فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ، ثُمّ قَالَ: أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ، إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ، يَقُولُ: (أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ).
’نافع بیان کرتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سخت سردی اور آندھی کی رات اذان دی اور اس میں کہا:
(أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ)’
اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو‘ اور پھر حدیث سنائی کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سردی اور بارش کے موسم میں مؤذن کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ یہ کہہ دیں:
(أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ)
’اپنے اپنے خیموں میں نماز ادا کر لو‘۔ [صحيح البخاري 1/ 237 برقم:635]
اس پر لجنۃ العلماء للإفتاء کی طرف سے دو فتاوی نشر ہوئے ہیں:
سردی کے سبب نماز جمع کرنے کا حکم؟
سردی کے سبب نماز گھر میں ادا کرنے کا حکم