سوال

ہمارے ہاں کچھ بزرگ حضرات ہیں، جو سخت سردی کے موسم میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء دو دو نمازیں اکٹھی پڑھتے ہیں، عذر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ سخت سردی میں بار بار وضو کرنا اور ٹھنڈ میں بار بار مسجد میں آنا انتہائی مشقت کا باعث ہے، کئی ایسے بزرگ ہوتے ہیں، جو گھٹنوں کے مریض ہوتے ہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟

ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شیعہ کی ظہرین اور مغربین پڑھنے کی طرح ہے، برائے مہربانی اس پر دلائل سے رہنمائی فرما دیں!

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

نماز ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اور نماز کی ادائیگی سے متعلق کئی ایک فرائض  و واجبات ہیں، جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔  جیساکہ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:

ﵟإِنَّ ٱلصَّلَوٰةَ كَانَتۡ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ كِتَٰبٗا ‌مَّوۡقُوتٗاﵞ [النساء: 103]

’مسلمانوں پر وقت مقررہ میں نماز ادا کرنا فرض ہے‘۔

اسی طرح مردوں کو نماز با جماعت ادا كرنے کا حکم دیا گیا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:

ﵟوَٱرۡكَعُواْ ‌مَعَ ‌ٱلرَّٰكِعِينَﵞ [البقرة: 43]

’رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘۔

البتہ شریعت میں بعض رخصتیں بھی موجود ہیں،  خاص حالات میں ان رخصتوں اور سہولتوں پر عمل کیا جا سکتا ہے ،  جیسا کہ سفر میں دو نمازیں اکٹھی کرنا وغیرہ، یا بیماری یا سخت سردی کے موسم میں گھر میں نماز ادا کرنا۔

لیکن رخصتوں پر عمل کو عام معمول نہیں بنایا جا سکتا ہے، جیسا کہ صورت مسؤلہ میں  بعض  بزرگ حضرات سخت سردی کے موسم میں  دو دو نمازیں  جمع کر لیتے ہیں، ایسا کرنا درست نہیں ہے۔

سردی کے سبب نماز گھر میں پڑھنے کی رخصت ہے، لہذا اگر ان بزرگوں کے لیے بار بار مسجد میں آنا مشکل ہے، تو  یہ نماز بروقت ہی پڑھیں، لیکن گھر میں پڑھ لیں۔

سیدنا  نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک رات خوب سردی تھی، صبح کی اذان ہو رہی تھی اور میں چادر میں لیٹا ہوا تھا۔ میں نے کہا: کاش مؤذن یہ بھی کہہ دے:

“ومن قعد فلا حرج”

’اگر کوئی نہیں آنا چاہتا تو کوئی حرج نہیں‘۔

ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے کہہ دیا :

“ومن قعد فلا حرج”

’ جو نہیں آ سکتا تو کوئی حرج نہیں‘۔  [ مسند احمد:17934، الصحیحہ للألباني:2605]

امام بخاری رحمہ اللہ نے  ’کتاب الجماعۃ‘ کے اندر درج ذیل باب قائم کیا ہے:

«بَاب: الرُّخْصَةِ فِي الْمَطَرِ وَالْعِلَّةِ أَنْ يُصَلِّيَ في رحله».

’بارش یا مرض کے سبب خیمے میں نماز پڑھنے کی رخصت کا باب‘۔

پھر اس کے تحت درج ذیل حدیث لے کر آئے ہیں:

“عَنْ نَافِعٍ:أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَذَّنَ بِالصَّلَاةِ، فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ، ثُمّ قَالَ: أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ، إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ، يَقُولُ: (أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ)”.

’نافع بیان کرتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سخت سردی اور آندھی کی رات اذان دی اور اس میں کہا: (أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ)’ اپنے خیموں میں نماز پڑھ لو‘ اور پھر حدیث سنائی کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سردی اور بارش کے موسم میں مؤذن کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ یہ کہہ دیں: (أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ) ’اپنے اپنے خیموں میں نماز ادا کر لو‘۔ [صحيح البخاري 1/ 237 برقم:635]

لہذا یہ بزرگ اگر تو استطاعت رکھتے ہیں تو تمام نمازیں بروقت آکر مسجد میں پڑھیں، اگر سردی یا مرض کے سبب مسجد میں آنا مشکل ہے، تو گھر میں ہی بروقت پڑھ لیں، لیکن مسجد میں نمازوں کو اکٹھا کرنے کا معمول بنا لینا درست نہیں ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

یہ بھی پڑھیں:سردی کے موسم میں گھر میں نماز ادا کرنا

ۤ

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ