سوال

سردی کے موسم میں گھر میں نماز ادا کرنا کیسا ہے ؟ براہ کرم رہنمائی فرما دیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اللہ تعالی کا فرما ن ہے :

“وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ “.[الحج:78]

’اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں کی‘۔
لہذا شریعت میں اللہ کے بندوں کی مشکلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، کچھ عبادات اور احکامات میں آسانیاں اور رخصتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ انہیں میں سے ایک رخصت سخت سردی کے موسم میں نماز سے متعلق ہے۔
لہذا جب سخت سردی ہو تو گھر میں نماز پڑھنے کی رخصت موجود ہے۔ جیسا کہ نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک رات خوب سردی تھی، صبح کی اذان ہو رہی تھی اور میں چادر میں لیٹا ہوا تھا۔ میں نے کہا: کاش مؤذن یہ بھی کہہ دے: “ومن قعد فلا حرج” ’اگر کوئی نہیں آنا چاہتا تو کوئی حرج نہیں‘۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے کہہ دیا :

“ومن قعد فلا حرج”.[ مسند احمد:17934، الصحیحہ للألباني:2605]

بعض روایات میں ۤ

“صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ” کے الفاظ ہیں۔ “.[مصنف عبد الرزاق:1926]

یعنی اذان میں “حی علی الصلاة، حی علی الفلاح ” کے ذریعے مسجد اور نمازِ باجماعت کی طرف بلایا جاتا ہے، لیکن جب اس طرح کا کوئی موقعہ ہو، جس میں گھر نماز پڑھنے کی رخصت ہو، تو ” ألا صلوا فی الرحال” جیسے الفاظ کہنا مسنون ہے۔ تاکہ جو گھر وں میں ہیں، وہ اس پر عمل کرتے ہوئے ، گھر میں نماز ادا کر لیں ۔ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ سردی میں اذان دیتے ہوئے کہا: “صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ” اور فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی سردی یا بارش کے موسم میں موذن کو یہی حکم دیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري: 632، مسلم:697]
اسی طرح جو لوگ مسجد میں نماز پڑھتے ہیں، ان کے لیے بارش یا برف باری یا سخت سردی کے موسم میں “الجمع بین الصلاتین” یعنی دو نمازوں کو ایک ساتھ ادا کرنے کی رخصت ہوگی۔ جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق مروی ہے کہ وہ سخت سردی میں دو نمازیں جمع کرلیا کرتے تھے۔[ المبدع لابن مفلح:2/111، المغني لابن قدامة:2/59، الشرح الممتع:4/393]
لیکن اس حوالے سے دو باتیں ذہن میں رہنی چاہییں:
1. یہ رخصت ایسی سردی کے موسم میں ہے، جو معمول سے زیادہ ہو کہ سب لوگوں کے لیے اسےبرداشت کرنا مشکل ہو۔ عام معمول کے مطابق سردی ہو، تو اس رخصت پر عمل کرنا درست نہیں۔ کیونکہ رخصت وہاں ہوتی ہے، جہاں مشقت ہو۔ اگر عام معمول کے مطابق موسمی تبدیلی کے سبب موسم گرم یا سرد ہو، پھر نہ تو مشقت ہوگی، اور نہ ہی اس بنا پر رخصت ہوگی۔
2. جب واقعتا سخت سردی ہو، تو مساجد میں اذان دیتے ہوئے، ” ألا صلوا فی الرحال” جیسے الفاظ ادا کرنا مسنون ہیں۔ تاکہ جو لوگ اس رخصت پر عمل کرنا چاہتے ہیں، وہ کرسکیں۔ اس میں ایک عام انسان کے لیے آسانی بھی ہوجاتی ہے کہ اسے رخصت کا معلوم ہوجاتا ہے۔ اور اس کا یہ بھی فائدہ ہوگا کہ جب یہ اعلان نہیں کیا جائے گا، تو لوگ مسجد میں آنا ضروری سمجھیں گے، جیسا کہ مذکورہ حدیث میں نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ نے تمنا کی کہ وہ اس رخصت کو باقاعدہ اذان میں سماعت کریں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ