سوال (2128)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال میری گردن اور سینے کے درمیان میری ہی باری کے دن ہوا، میں نے اس دن کسی سے کچھ بھی زیادتی نہیں کی، یہ میری ناسمجھی اور نو عمری تھی کہ میری گود میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوئے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک تکیہ پر رکھ دیا اور میں عورتوں کے ساتھ مل کر رونے لگی اور اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگی، اس حدیث سے کچھ لوگ مصیبت کے وقت اپنے چہرے پر مارنے پر استدلال کرتے ہیں؟
جواب
یہ حدیث مسند امام احمد اور مسند ابویعلیٰ میں مروی ہے
“الحديث رواه الإمام أحمد وأبو يَعلَى بِلفظ”
حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا أبي، عن ابن إسحاق، قال: حدثني يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير، عن أبيه عباد، قال: سمعت عائشة، تقول: ” مات رسول الله صلى الله عليه وسلم بين سحري، ونحري وفي دولتي، لم أظلم فيه أحدا، فمن سفهي وحداثة سني أن رسول الله قبض وهو في حجري، ثم وضعت رأسه على وسادة، وقمت ألتدم مع النساء، وأضرب وجهي”.
[مسند الامام احمد : 26348 ، طبع الرسالۃ ، الفتح الربانی]
قال الشيخ شعيب الارناؤط واصحابه : إسناده حسن من أجل ابن إسحاق: وهو محمد، وقد صرح بالتحديث هنا، فانتفت شبهة تدليسه. وبقية رجاله ثقات رجال الشيخين غير يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير أخرج له أصحاب السنن، وهو ثقة، يعقوب: هو ابن إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف.
[أخرجه أبو يعلى : 4586 ، و البيهقي في الدلائل : 7/213 من طريقين عن ابن إسحاق، بهذا الإسناد و إسناده حَسَن]
اس حدیث میں عیاں ہے کہ جناب رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ثابت شدہ حقیقت ہے ۔
“مات رسول الله صلى الله عليه وسلم بين سحري، ونحري”
اور اس حدیث ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبردست فضیلت و منقبت ثابت ہوتی ہے کہ رحمۃ للعالمین کی وفات ان کے سینہ اقدس پر ہوئی ، اور ان کے اس شرف کے لیے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات چند روز پہلے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کب سیدہ عائشہ کے گھر جاؤں گا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سینے پر ہوئی اس کا ثبوت صحیح بخاری : 1389 اور صحیح مسلم ، باب فضل عائشہ میں موجود یہ حدیث بھی ہے :
عن عروة، عن عائشة، قالت: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليتعذر في مرضه: «أين أنا اليوم، أين أنا غدا» استبطاء ليوم عائشة، فلما كان يومي، قبضه الله بين سحري ونحري ودفن في بيتي”
جناب عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نقل کرتے ہیں کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات کے ایام میں دریافت فرماتے آج میری باری کن کے یہاں ہے۔ کل کن کے یہاں ہوگی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن کے متعلق خیال فرماتے تھے کہ بہت دن بعد آئے گی۔
چنانچہ جب میری باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح اس حال میں قبض کی کہ آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میرے ہی گھر میں آپ دفن کئے گئے۔
اور صحیح البخاری میں یہی حدیث دوسری اسناد سے اس طرح منقول ہے :
قالت عائشة رضي الله عنها: توفي النبي صلى الله عليه وسلم في بيتي، وفي نوبتي، وبين سحري ونحري، وجمع الله بين ريقي و ريقه، قالت: دخل عبد الرحمن بسواك فضعف النبي صلى الله عليه وسلم عنه، فأخذته، فمضغته، ثم سننته به
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر ‘ میری باری کے دن میرے حلق اور سینے کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے وفات پائی تھی ، اللہ تعالیٰ نے وفات کے وقت میرے تھوک اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھوک کو ایک ساتھ جمع کر دیا تھا ، وہ اس طرح کہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے بھائی مسواک لیے ہوئے اندر آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چبا نہ سکے ۔ اس لیے میں نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور میں نے اسے چبانے کے بعد وہ مسواک آپ کے دانتوں پر ملی”
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کا سفر اختیار کیا ، سیدہ اپنی اس کم عمری کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اپنے طرز عمل کا عذر بتایا ہے کہ میں اس وقت کم عمر ی کے سبب اتنے بڑے حادثہ کو دیکھ کر گھبرا گئی تھی ، یہ میری ناسمجھی تھی ، میرا یہ طرز عمل اس موقع کی مناسبت سے درست نہیں تھا ، اسی لئے وہ اسے اپنی نوعمری کی نا سمجھی قرار دے رہی ہیں ۔
“فَمِنْ سَفَهِي وَحَدَاثَةِ سِنِّي”
اس لیے اس حدیث میں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مذکورہ عمل میں مروجہ ماتم، اور پیٹنے کی ہرگز کوئی دلیل نہیں بلکہ وہ خود اس عمل کو “ناسمجھی” قرار دیتی ہیں،
کیونکہ شریعت اسلامیہ میں میت پر آہ و بکا کرنا، چیخنا چلانا اور نوحہ کرنا ناجائز ہے۔ اسی طرح کپڑے پھاڑنا، رخسار پیٹنا وغیرہ بھی ناجائز ہے، جس طرح کہ صحیحین میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے :
“ليس منا من ضرب الخدود و شق الجيوب و دعا بدعوى الجاهلية”
[صحيح البخارى ، صحيح مسلم ]
“جو شخص بوقت مصیبت رخسار پیٹتا ، گریبان پھاڑتا اور جاہلانہ انداز میں چیختا چلاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے”
سیدنا ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “اثْنَتَانِ فِي النَّاسِ هُمَا بِهِمْ كُفْرٌ: الطَّعْنُ فِي النَّسَبِ وَالنِّيَاحَةُ عَلَى الْمَيِّتِ”
“لوگوں میں دو باتیں ہیں ، وہ دونوں ان میں کفر (کی بقیہ عادتیں ) ہیں : ( کسی کے ) نسب پر طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا”۔
[ صحیح مسلم ، حدیث : 67، کتاب الایمان]
ماتم کے بارے میں شیعہ مذہب کی معتبر کتب کیا کہتی ہیں تفصیل درج ذیل ہے:
حضرت ابو مالک اشعری رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میری امت میں زمانہ جاہلیت کی چار چیزیں ہیں جن کو لوگ نہیں چھوڑیں گے، حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسرے شخص کو نسب کا طعنہ دینا، ستاروں کو بارش کا سبب جاننا اور نوحہ کرنا اور نوحہ کرنے والی اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے قیامت کے دن گندھک اور جرب کی قمیص پہنائی جائے گی۔
[حیات القلوب، ملا باقر مجلسی جلد : 2، ص : 677]
شفیع بن صالح شیعی عالم لکھتے ہیں کہ شیطان کو بہشت سے نکالا گیا تو اس نے نوحہ ماتم کیا۔ حدیث پاک میں ہے کہ غناء ابلیس کا نوحہ ہے ۔ یہ ماتم اس نے بہشت کی جدائی میں کیا ہے، اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماتم کرنے والا کل قیامت کے دن کتے کی طرح آئے گا اور آپ نے یہ بھی فرمایا: کہ ماتم اور مرثیہ خوانی زنا کا منتر ہے۔
[شیعہ کی معتبر کتاب مجمع المعارف حاشیہ حلیۃ المتقین، ص 142 و 162]
حضرت جعفر صادق فرماتے ہیں:
لیس لاحد ان یعداً اکثر من ثلاثۃ ایام الا المراۃ علی زوجہا حتی تنقضی عدتہا
کسی مسلمان کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا سوائے عورت کے کہ وہ عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی موت پر سوگ کرسکتی ہے
[من لایحضرہ الفقیہ : ج : 1]
حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا:
“ینزل الصبر علی قدر المصیبۃ ومن ضرب یدہ علی فخذیہ عند مصیبۃ حبط عملہ”
صبر کا نزول مصیبت کی مقدار پر ہوتا ہے (یعنی جتنی بڑی مصیبت اتنا بڑا صبر درکار ہوتا ہے) جس نے بوقت مصیبت اپنے رانوں پر ہاتھ مارے تو اس کے تمام اچھے اعمال ضائع ہو گئے۔
[شیعہ کی معتبر کتاب نہج البلاغہ، ص : 495، باب المختار من حکم امیر المومنین حکم : 144، شرح نہج البلاغہ لابن میثم ج 5، ص : 588]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا:
لولا انک امرت بالصبر ونهيت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشئون.
یارسول ﷲ! اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ کا ماتم کر کے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کر دیتے۔
[شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج : 4 ، ص 409]
کربلا میں حضرت حسین رضی ﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت:
یااختاہ اتقی ﷲ وتعزی بعزاء ﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک
فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا انا ہلکت۔
سیدنا حسین رضی ﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب کو وصیت کی، فرمایا:
اے پیاری بہن! ﷲ سے ڈرنا اور ﷲ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرنا، خوب سمجھ لو۔ تمام اہل زمین مر جائیں گے اہل آسمان باقی نہ رہیں گے، میرے نانا، میرے بابا، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے۔ میرے اور ہر مسلمان کے لئے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کی ہدایات بہترین نمونہ ہیں۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا: اے ماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں۔ میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا۔ میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ بولنا۔
[الارشاد للشیخ مفید ص : 232، فی مکالمۃ الحسین مع اختہ زینب، اعلام الوریٰ ص : 236 امرالامام اختہ زینب بالصبر، جلاء العیون جلد 2، ص : 553، اخبار ماتم ص : 399]
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
مگر ائمہ دین، ائمہ محدثین اسلاف امت میں سے کسی نے یہ معنی و استدلال نہیں کیا ہے،۔کیا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا جیسی فقیہ ، محدثہ صحابیہ کو نوحہ پر جو وعید ہے معلوم نہیں تھی، اگر ہم نوحہ کو حرام مانتے ہیں تو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بلاشبہ نوحہ کو جانتی اور حرام مانتیں تھیں، پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اسے اچانک نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی جدائی اور کم عمری کے سبب اچانک عمل ہو جانے کو ناسمجھی قرار دے رہی ہیں، اس لیے یہ ماتم پر دلیل نہیں بن سکتا ہے،
اور جس عمل کو سنجیدہ ہو کر ارادۃ نہ کیا جائے اس پر رب العالمین کی طرف سے کوئی مؤاخذہ سرزنش بھی نہیں ہے۔
شیخ ابو عمرو المصری لکھتے ہیں:
فمن سفهي وحداثة سني ، هي رضي الله عنها قدمت العذر فيما فعلت، وموت الرسول صلى الله عليه وسلم من الأمور المذهلة التي لا يثبت أمامها إلا الأشداء، فموته صلى الله عليه وسلم من المصائب التي لن يصاب المسلم بمثلها أبدا مهما عظمت مصيبته، وكلما تذكرت موته صلى الله عليه وسلم أشفقت على من حضر ذلك من الصحابة رضوان الله عليهم، بل أحيانا أحمد الله على أنني لم أكن صحابيا وشهدت هذه المصيبة المفجعة، فلا تتعجب أخي من هذا الفعل، وإغلاق النفس وذهول العقل له أحكام تختلف عن الأحكام حال حضور العقل، والله أعلم
[ملتقی أهل الحديث : 2]
اور یاد رکھیں یہ الفاظ منکر ہیں ، موسوعہ حدیثیہ کے محققین کی طرف سے اس روایت کی تعلیق میں لکھا ہوا ہے ۔
ﻗﻠﻨﺎ: ﻭﻗﻮﻟﻬﺎ: ﻭﻗﻤﺖ ﺃﻟﺘﺪﻡ ﻣﻊ اﻟﻨﺴﺎء ﻭﺃﺿﺮﺏ ﻭﺟﻬﻲ. ﻓﻴﻪ ﻧﻜﺎﺭﺓ ﻭﻟﻢ ﻧﺠﺪﻩ ﺇﻻ ﻓﻲ ﻫﺬﻩ اﻟﺴﻴﺎﻗﺔ، ﻭاﻟﺴﻴﺪﺓ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺯﻭﺟﺔ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻻ ﻳﺨﻔﻰ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﺣﺪﻳﺚ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻣﺮﻓﻮﻋﺎ: ﻟﻴﺲ ﻣﻨﺎ ﻣﻦ ﺿﺮﺏ اﻟﺨﺪﻭﺩ، ﻭﺷﻖ اﻟﺠﻴﻮﺏ، ﻭﺩﻋﺎ ﺑﺪﻋﻮﻯ اﻟﺠﺎﻫﻠﻴﺔ” [ﻫﻮ ﺣﺪﻳﺚ ﺻﺤﻴﺢ ﺳﻠﻒ ﻓﻲ ﻣﺴﻨﺪ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺑﺮﻗﻢ : 3658 ، موسوعہ حدیثیہ ، مسند أحمد بن حنبل : 43/ 369 ، 26348]
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وفات مبارک کی خبر اور اس پر صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کا بے حد افسردہ ہونا احادیث صحیحہ میں بیان ہوا ہے ، مگر کہیں بھی ثقات حفاظ کی جماعت نے صحابہ،امہات المومنین کی طرف سے خلاف شرع عمل کا کیا جانا بیان نہیں کیا ہے یہ بھی مسند أحمد کی اس روایت کے الفاظ کے غیر محفوظ اور منکر ہونے پر قرینہ و دلیل ہے، کیونکہ ابن اسحاق کے حفظ پر کلام ہے تو ایک ہی واقعہ جس کا تعلق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے ہے کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سمیت دیگر صحابہ نے بیان کیا مگر کسی نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے جو اس کے منکر ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور ام المومنین صریح احکام کی خلاف ورزی تو کبھی نہیں کر سکتی تھیں کہ وہ نوحہ کرتیں اور چہرے کو پیٹتیں ، اور شیعہ کتب میں خود نوحہ و ماتم پر وعید و مذمت موجود ہے تو انہیں اپنے مذہب کی خبر بھی لینی چاہیے ہے۔
آخر پر سوال ہے کہ اپنے عمل کے جواز پر اپنی کتب سے دلیل پیش کیا کریں ، جس دین پر تمہارا ایمان نہیں اس کے غیر ثابت مجمل، مبھم غیر صریح الفاظ و متن کو پیش کر کے دھوکہ کیوں دیتے ہو ، شیعہ مذہب کی بنیاد دراصل جھوٹ وفریب پر کھڑی ہے، سارا دارومدار باطل نظریات پر ہے یا کچھ أهل السنة کی کتب سے روایات پیش کر کے معنی ومفہوم باطل لیتے ہیں یہ ہی حقیقت ہے ان کی باطل روایات ،من گھڑت واقعات کذاب لوگوں کی روایات کا سہارا جیسے ابو مخنف،محمد بن السائب الکلبی،الواقدی وغیرہ تو ان کذابوں کے کذب و دجل سے اہل ایمان کو دھوکہ ہرگز نہیں کھانا چاہیے۔
والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
عروہ عن عائشہ سے یہ روایت بخاری میں ہے، یہ الفاظ نہیں ہیں، یہ الفاظ یحیی عن عباد عن عائشہ کی سند سے ہے۔ معروف شاگرد ان الفاظ کو بیان نہیں کرتے، ان الفاظ سے یہ روایت منکر ہے واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ