قارئین کرام! عرب لوگوں اپنے شجرہ نسب یاد رکھتے ہیں صرف یاد ہی نہیں رکھتے وہ لکھتے بھی ہیں اور اپنی اولادوں کو یاد بھی کرواتے ہیں عرب لوگوں کے شجروں پر کئی کئی جلدوں میں بہت سی کتب مطبوع ہیں۔

ہم عجمی النسل لوگوں میں اسکا رواج نہیں، میں نے کئی مرتبہ تجربہ کیا ہے بہت سے بزرگوں سے جب شجرہ نسب پوچھا تو وہ دادا سے اوپر کچھ نہیں بتا سکے اور نہ ہی انہیں دادا اور پردادا کے دیگر بچوں کی اولادوں کا علم تھا۔ یہی سبب ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور خونی رشتے داروں کا علم بھی نہیں ہوتا۔

اور اس کا نقصان یہ ہوا کہ رشتہ داروں میں وہ محبت، مودت، رحمت، چاہت، خیرخاہی، ہمدردی، شفقت، تڑپ، بھلائی چارہ اور حسن سلوک بالکل نہیں رہا، جہاں یہ سب کچھ ہونا تھا وہاں اب نفاق، کدورت، حسد، بغض، کینہ، نفرت، لڑائی جھگڑا، جادو، بدسلوکی، قتل وغارت، اور دوریاں وغیرہ پیدا ہو رہی ہیں۔

رشتہ داروں میں محبت پیدا کرنے اور نفرتیں ختم کرنے کے لیے ہمیں اس حدیث پر عمل کرنا ہو گا۔ اس حدیث مبارکہ میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے شجرہ نسب یاد کرنے کے فوائد بتائے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تَعَلَّمُوا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِهِ أَرْحَامَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي الْأَهْلِ، ‏‏‏‏‏‏مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْسَأَةٌ فِي الْأَثَرِ

ترجمہ:  اس قدر اپنا نسب جانو جس سے تم اپنے رشتے جوڑ سکو، اس لیے کہ رشتہ جوڑنے سے رشتہ داروں کی محبت بڑھتی ہے، مال و دولت میں اضافہ ہوتا ہے اور آدمی کی عمر بڑھا دی جاتی ہے۔

(ترمذی حدیث نمبر 1979)

اس حدیث سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:

1- رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہر بندے کو شجرہ نسب یاد کرنے کا حکم دیا ہے۔

2- شجرہ نسب یاد کرنے سے اپنے رشتہ داروں کا پتہ چلتا ہے کہ کون کون لوگ ہمارے خونی رشتے دار ہیں۔

3- یہ حکم صرف عربیوں کے لیے نہیں بلکہ عجمیوں کے لیے بھی ہے۔

4- جب رشتہ داروں کا پتہ چلتا ہے تو ایک خون ہونے کی وجہ سے محبت بڑھتی ہے اور نفرتیں دم توڑ جاتی ہیں۔

5- رشتہ داروں میں محبت بڑھنے کی وجہ سے اللّٰہ تعالٰی مال و دولت میں اضافہ کر دیتا ہے۔

6- صرف مال میں ہی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ عمر بھی بڑھا دی جاتی ہے۔

اللّٰہ تعالٰی ہم سب کو اس عظیم فوائد پر مشتمل حدیث مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین.

 قاری محمد اسماعیل قادرپوری