سوال

سوال یہ ہے کہ یورپ میں بہت سے لوگ شراب کا کاروبار کرتے ہیں،اور یہاں بہت سارے مسلمان بھی اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ مثلا اگر کسی مسلمان کی دکان ہے ،تو اس نے وہاں شراب بھی رکھی ہوئی ہے،اسی طرح اگر ریسٹورنٹ وغیرہ ہیں، تو وہاں بھی شراب ہے۔

اور وہ اپنی اسی کمائی سے صدقہ خیرات کرتے ہیں، مساجد بنانے اور ان کے معاملات چلانے کےلیے چندہ دیتے ہیں، کیا اس طرح حرام کمائی سے صدقہ و خیرات لینا جائز ہے؟

بعض لوگ کہتے ہیں  کہ ہم یورپ میں ہیں،  کیا  کریں، ہماری مجبوری ہے۔

اس بارے میں تھوڑی رہنمائی کر دیں کہ یہاں امام  مسجد کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ اور یہ لوگ جو مجبوری کہتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

  • یہ شراب اصل میں خانہ خراب ہے، قرآن کریم میں اس پر  بڑی سخت وعید ہے اور اسے شیطانی کام  اور نجس اور پلید  قرار دیا گیا ہے۔ ایسی خبیث اور گندی چیز کی آمدنی سے انسان خود بھی کھائے اور اس سے بچوں کی بھی پرورش کرے تو آپ اندازہ کریں اس  خاندان میں کیا برکت ہوگی؟

تو یورپ میں رہنے والے ان مسلمانوں کو  اللہ سے ڈرتے ہوئے ان حرام کاموں سے باز آنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ  رزق تو اللہ ہی دینے والا ہے۔اللہ تعالی کا  ارشاد ہے:

“وَمَنْ يَّتَّقِ اللّـٰهَ يَجْعَلْ لَّـهُ مَخْرَجًا”.[الطلاق:2]

’ جو اللہ تعالی سے ڈر جاتا ہے، اللہ تعالی اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنادیتا ہے‘۔

لہذا یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ جوحرام کاموں سے اپنے آپ کو بچا لے تو اللہ تعالی اس کو مصیبتوں سے نکلنے کا راستہ بتا دیں گےاور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائیں گے کہ اس کو اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوگا۔

  • جہاں تک اللہ کے رستے میں خرچ کرنے کی بات ہے، تو اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

“یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ”. [البقرة:267]

’اے ایمان والو تم اس چیز سے خرچ کرو جو تم حلال اور پاکیزہ طریقے سے کماتے ہو‘۔

اسی طرح صدقے اور خیرات کے بارے میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“اِنَّ الله طَیِّبٌ لاَ یَقْبَلُ اِلَّاطَـیِّبًا”.[صحيح مسلم: 1015]

اللہ تعالی خود بھی پاک ہیں اور پاکیزہ چیز کو قبول فرماتے ہیں۔

لہذا جو ائمہ مساجد اس طرح کی کمائی کو لیتے ہیں، انہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ یہ  کسی صورت بھی جائز نہیں کہ انسان حرام کی کمائی سے مساجد کی ضرورت کو پورا کرے، یا دین کا کام سرانجام دینے والے اپنی ضروریات زندگی کے لیے حرام کی کمائی استعمال کریں۔

یہ اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے اور غیرت ایمانی کے بھی منافی ہے، بلکہ ان ائمہ مساجد کو تو دیگر مسلمانوں کو بھی سمجھانا چاہیے کہ وہ حرام کاموں سے باز آجائیں۔

  • جہاں تک اخراجات اور مصارف کی بات ہے تو اللہ  کی ذات پر توکل کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: “وَمَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُه”. [الطلاق:3]

’جو اللہ کی ذات پر توکل کرلیتا ہے، اللہ تعالی اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے‘۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ