” دو بہنوں کو اغوا کر لیا گیا، نو دن بعد ایک بہن گھر پہنچ گئی، ایک شادی شدہ خاتون اغوا، گیارہ افراد نے ایک ماں اور اس کی بیٹی کو اغوا کر لیا، ایک ایف اے کی طالبہ کو پانچ اوباش لڑکے اغوا کر کے لے گئے، دو لڑکیاں گھر سے بھاگ گئیں “ یہ صرف ایک دن کی دل سوز خبریں ہیں، ہر روز درجنوں نوجوان لڑکیوں کا اغوا اور ان کے ساتھ زیادتی کے واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔اسلامیہ یونی ورسٹی کے سانحے نے ہر شخص کے دل کو چیر کر رکھ دیا ہے۔یہ واقعات تو وہ ہیں جو اخبارات میں شائع ہو جاتے ہیں، ان سے زیادہ ایسے واقعات کو عزت و ناموس کے برباد ہونے کے خوف کی وجہ سے چّھپا لیا جاتا ہے۔رحمان فارس کا شعر ہے:
جو دیکھا ہے کسی کو مت بتانا
علاقے بھر میں عزت دار ہوں مَیں
والدین کے لیے معاشرے میں بدنامی، رسوائی اور اہانت کا سبب بننے والے ان واقعات کے اسباب آخر کیا ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ نازونعم میں پَلی بڑھی، والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور بننے والی بیٹی اغوا کر لی جاتی ہے یا وہ خود کسی اوباش کے ساتھ گھر سے بھاگ جاتی ہے اور اپنے ماں باپ کی عزت کو اس طرح لیر و لیر کر ڈالتی ہے کہ پھر قدر و منزلت کا بحال ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ایسی لڑکی کے والدین معاشرے میں منہ چّھپاتے پھرتے ہیں۔ایک تو بدنامی اور دوسرا تھانوں اور کچہریوں کے چکّر لگا لگا کر رہی سہی عزت کا بھی بیڑا غرق کروا بیٹھتے ہیں۔اکثر یہی ہوتا ہے کہ پولیس ایسے گھناؤنے مجرموں کے ساتھ مل جاتی ہے، پھر سیاسی شعبدہ بازوں اور کرشمہ سازوں کی طرف سے لڑکی کے والدین پر صلح کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے اور پھر لڑکی کو اس شرط پر واپس کیا جاتا ہے کہ مجرموں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی، اکثر و بیشتر ایسے واقعات کا نتیجہ یہی تو نکلتا ہے۔والیؔ آسی نے کہا ہے:
فاصلہ عزت و رسوائی میں والیؔ صاحب
سنتے آئے ہیں کہ بس چند قدم ہوتا ہے
کسی بھی قابلِ تکریم اور معزز خاندان کو رفعتوں سے اٹھا کر پستیوں میں دھکیلنے اور ان کے لیے رسوائی اور بدنامی کا سبب بننے والے ایسے پّر سوز واقعات کے بہت سے اسباب ہیں مگر ان سب کی بنیادی وجہ بے پردگی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جب تک عورت پردے میں رہتی ہے، اس وقت تک اس کی شرم، حیا، عصمت اور آبرو محفوظ رہتی ہے اور وہ شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچی رہتی ہے اور جب وہ بے پردہ ہوتی ہے تو عزت و ناموس کے لٹیرے بھیڑیے جو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، اس پر اپنی غلیظ نظریں گاڑ لیتے ہیں اور انجام لڑکی کے اغوا یا گھر سے فرار کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ساجد سجنی کا شعر ہے:
جب سے اٹھا کے رکھ دیا برقعے کو طاق پر
تکتے ہیں گھور گھور کے سب بد نظر مجھے
یورپی معاشرہ آج جس اخلاقی گراوٹ اور جنسی کج رَوِی کے دہانے پر کھڑا ہے، اس کا سبب بھی یہی بے پردگی ہے۔آج یورپ میں 40 فی صد سے زائد بچے حرامی پیدا ہو رہے ہیں، سکنڈے نَیویَن ممالک میں تو شادیوں کی شرح 90 فی صد تک کم ہو چکی ہے۔ہالینڈ میں 30 فی صد، سویڈن میں 45 فی صد اور فن لینڈ میں 25 فی صد خواتین کو جبراً جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وجہ بے پردگی ہے۔یورپ کی بہت سی خواتین اب اس راز سے آشنا ہو چکی ہیں کہ پردہ ہی وہ واحد عمل ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی عصمت اور ناموس کے آبگینوں کو بچا سکتی ہیں، اس لیے آج عالَمِ کفر اور ان کے بہی خواہ برقعے کے شدید خلاف ہیں۔جرمنی اور فرانس کے دلوں میں مسلمان خواتین کا برقع کسی کانٹے کی مانند کُھب کر رہ گیا ہے۔فرانس کا ایک سابق وزیرِ انصاف بڑے دھڑلے سے کہتا تھا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو برقع پہننے پر مجبور کیا تو اس کی شہریت ختم کر دی جائے گی اور جو خواتین برقع پہنتی ہیں، انھیں فراس سے نکال دیا جائے گا۔فرانس کا سابق صدر ” نکولس سرکوزی “ بھی برقعے کے متعلق قانون سازی پر زور دیتا تھا، فرانس میں برقع پہننے والی خواتین پر 750 یورو جرمانہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔گذشتہ ہفتے بھی فرانس کی اعلا ترین عدالت ” کونسل آف سٹیٹ “ نے کہا کہ اس نے حکومت کی طرف سے گذشتہ ماہ عائد پابندی کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے کے لیے ایک ایسوسی ایشن کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔عدالت نے زور دیا کہ حجاب پر پابندی مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک نہیں ہے “ حجاب کے خلاف فرانس کی حکومت کے قانون سازی کے باوجود، اسلام کی مقبولیت روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔فرانسیسی خواتین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر حجاب کے خلاف اتنے سخت قوانین کیوں بنائے جا رہے ہیں؟ اسی سوال کا جواب کھوجنے اور تلاشنے کا جذبہ انھیں اسلام کے قریب لا رہا ہے، فرانس میں اسلام قبول کرنے والی خواتین کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔بوسٹن یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر ” کیون ریا “ نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ فرانس میں اسلام پھیل رہا ہے، جس کا واضح ثبوت وہاں پر خالی ہونے والے چرچ اور لوگوں سے بھری ہوئی مساجد ہیں۔
حیرت ہے کہ فرانس میں تو حجاب کی وجہ سے اسلام کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے مگر یہاں بے پردہ خواتین کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں تو خواتین غیر محرموں کے ساتھ مصافحہ بھی کرتی ہیں۔جنرل ضیا ء الحق نے اپنے دورِ حکومت میں خواتین ٹی وی اناؤنسرز اور کمپیئرز کے سَر پر دوپٹے کو لازمی قرار دیا تھا، باوجود اس کے کہ اس میں بھی عورت کا سارا چہرہ کّھلا ہی رہتا ہے، مہتاب اکبر نامی ایک ٹی وی کمپیئر نے دوپٹے کے ساتھ ٹی وی پر آنے ہی سے انکار کر دیا تھا اور جب تک یہ پابندی رہی، وہ ٹی وی پر نہ آئی اور جب آئی تو سَر پر دوپٹے کے بغیر ہی آئی۔
فرانس جو عیسائیوں کے رومن کیتھولک فرقے کا گڑھ ہے مگر حجاب کی وجہ سے وہاں بے حیائی کی تیرگیوں میں کچھ کمی ہو رہی ہے اور اسلام کا نور پھیل رہا ہے، جو ہماری بے پردہ خواتین کے لیے مقامِ غور و فکر ضرور ہے، اگر خواتین اپنی عصمت اور آبرو کی حفاظت کرنا چاہتی ہیں تو پردے کے سوا کوئی چارہ ء کار نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ جب تک خواتین بے پردگی کے گھور اندھیروں میں بھٹکتی رہیں گی، عورتیں لٹتی رہیں گی، برباد ہوتی رہیں گی، ان کی آبرو کو نوچا جاتا رہے گا اور مرد نما بھیڑیے اپنی من مانی کرتے رہیں گے اور اخباروں کے جرائم کے صفحات ایسی خبروں سے بھرتے رہیں گے.

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )